Chereads / Shaji Haider mujhy Tum sy Ishq hy / Chapter 4 - chapter#03

Chapter 4 - chapter#03

جو سکون مجھے اپنے گھر میں ملتا ہے وہ دنیا کی کسی جنت میں بھی محسوس نہیں ہوتا ۔۔۔

میں نے گھر پہنچ کر سُکھ کا سانس لیا ۔۔۔

آپی میرے بیڈ روم تک ساتھ آئی ۔۔۔میں بیڈ پر بیٹھ گئ اور اسے بھی اشارہ کیا کہ وہ میرے پاس ہی بیٹھ جائے۔۔۔میں جانتی تھی وہ ناراض ہو گئ ہے اور ہمیں بات کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ پر وہ نہیں بیٹھی بلکہ میرا موبائل اپنے پرس سے نکال کر بیڈ پر میرے سامنے رکھتے ہوئے کہنے لگی فکر مت کرو میں نے ابھی تمہارا نیا نمبر اپنی امی کو نہیں دیا ہے انکی کال نہیں آۓ گی اس پر۔۔۔ لیکن شاید تمہاری امی کی آجاۓ وہ تو تمہارے فکر میں ہلکان ہو رہی ہونگی۔۔۔ دیکھو تو کتنی مسڈ کالز اور میسجز ہیں۔۔۔ اسکے اس طنز کے نشتر نے میرے دل کو خون خون کردیا آنکھوں میں آۓ آنسو چہرے پر بہت روکنے کے باوجود بھی پھسل پڑے۔۔۔ اور اسکے لفظوں کے بوجھ سے سر جھکنے لگا۔۔۔ارے تم رو کیوں پڑیں میں تو اس لیے کہہ رہی تھی کہ تم موبائل کے لیے اس قدر پریشان تھیں ہسپتال میں بھی کے جیسے کسی کی بہت اہم کال کی منتظر ہو۔۔۔وہ کہہ رہی تھی اور میں یک ٹک لگاۓ اسے دیکھ رہی تھی اس یقین اور بے یقینی میں کہ یہ میری وہی بہن ہے نا جس کے ساتھ میں نے اپنا بچپن اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ گزارا ہے جس کیلئے میں ایسا پھول تھی کے اس نے مجھے بھول سے بھی کوئی چوٹ نہیں پہنچائی تھی اس وقت وہی اس بات سے بے خبر کے مجھے کتنی تکلیف ہوگی وہ طنز کے نشتر میرے رَگ میں اتار رہی تھی۔۔۔

ویسے تم شاور لے کر فریش ہو جاؤ تب تک میں لنچ ریڈی کرتی ہوں مجھ سے کہہ کر وہ شازیہ کو پکارنے لگی (شازیہ میری میڈ )

شازیہ !شازیہ! اپنی باجی کے کپڑے نکالو یہاں آکر پھر میرے پاس کچن میں آو۔۔۔

شازیہ فوراً ہی نمودار ہوگئ یہ کون سا محل تھا جو اسکے آنے میں وقت لگتا یہ ایک چھوٹا سا فلیٹ ہے پر کسی بڑے سے گھر سے کہیں زیادہ پُرسکون ہے میرے لیے۔۔۔

آپی کمرے سے جا چکی تھی ، شازیہ بھی الماری سے کپڑے نکال کر رکھ کے جا چکی تھی ۔۔۔

میرا ذہن جو آپی کی باتوں سے بلکل سُن ہو چکا تھا ۔۔۔ میری نظر سامنے پڑے موبائل پر تھی۔۔۔ کیا بتاؤں کسی کو کہ موبائل کیوں چاہیے تھا مجھے۔۔۔ میں اپنوں سے بچھڑی ہوئی ۔۔۔ میں نے اپنے لیے ایک اپنا ڈھونڈ لیا ہے۔۔۔

ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھایا ، پرائیوٹ سیوّ کا فولڈر اَن لاک کیا اس میں موجود واحد تصویر میرے راحت جاں کی جو جانے کیوں مجھے جان سے بھی زیادہ عزیز ہوگیا تھا میرے سامنے وہ سورج کی طرح تیز چمکتا ہوا چہرا تھا جسے دیکھتے ہی میں سورج مکھی کے پھول کی طرح کِھل رہی تھی جانے کتنی ہی بار کی دیکھی ہوئی یہ تصویر ہر بار نئی لگتی تھی،،،

میں اس تصویر کو تنہائی میں گھنٹوں سامنے رکھ کر دیکھتی رہتی ،،، یہ تصویر تمہاری دوسری تصویروں سے مختلف تھی۔۔۔ یہ ایک بولتی ہوئی تصویر تھی جو مجھے چِڑا کر مجھ سے کہتی تھی میں "اب بھی ویسا ہی تو ہوں" ، "وہ بھی میری ہے تو یہ بھی میں ہی تو ہوں "

اور اس بولتی تصویر کی اس طرح کی باتیں سن کر میں مسکرانے لگتی ۔۔۔ اس میں جو مجھے دکھائی دیتا تھا ( "تھا" اسلے لکھ رہی ہوں کہ ایک حادثہ میں میں یہ تصویر گنوا چکی ہوں جو صرف میری تھی اور شاید یا پھر یقیناً صرف میرے لیے ہی بنائی گئ تھی )۔ وہ شاید کوئی اور نہ دیکھ پائے ایک مکمل مردانہ وجاہت رکھنے والے مرد کے اندر کی معصومیت دیکھی میں نے اس میں۔۔۔

ایک بہت مِیچیور مرد کے اندر چھپا اُسکا بچپنا۔۔۔

وہ چمکتی ہوئی بولتی ہوئی گھنی پلکوں والی آنکھیں۔۔۔

وہ خوبصورت ناک ۔۔۔(جس پر شاید صرف غصہ ہی دہرا رہتا ہے )

اور وہ وڈیروں جیسی مونچھ اور انتہائی نفاست سے تراشی ہوئی داڑھی ۔۔۔

جس کی وجہ سے ہونٹ با مشکل ہی دکھائی دے رہے تھے ورنہ میں ہونٹ کی تعریف میں بھی ضرور کچھ کہتی ۔۔۔

مجھے تو لگتا ہے حسنِ یوسف بس یہیں پر اترا ہے ، تب ہی تو میں زلیخا کی طرح دیوانہ وار تکتی رہتی ہوں آپکو

ہر بار کی دیدار پر میں کہتی نیلے رنگ کے اس شرٹ میں بہت اچھے لگ رہے ہیں آپ، آپکو نیلا رنگ پسند ہے اور شاید یہ رنگ ہے ہی آپکے لیے۔۔۔

اس قدر دیکھا ہے اس ایک تصویر کو

کہ ایک ایک نقش اپنے دل میں اتار لیا میں نے پھر بھی اسے دیکھے ہی جاتی ہوں دل نہیں بھرتا میرا ،اسے دیکھ کر میں مسکراتی ہوں۔۔۔ سارے درد بھول جاتی ہوں۔۔۔اور ہر بار خود سے ہی کہتی جاتی ہوں۔۔۔آپ مجھے اچھے لگتے ہیں ۔۔ میں آپکوبہت چاہتی ہوں۔۔۔

یہ صرف ایک تصویر نہیں جیسے دوا ہوچکی ہو اب میرے ہر درد کی۔۔۔دوا سے زیادہ کارا آمد ہے میرے لیے یہ۔۔۔

یہ مجھے سب بھولا دیتی ہے جیسے ابھی آپی کی ساری طنزیہ باتیں میں بھول چکی ہوں اور آپکی بات یاد کر کے باقاعدہ ہنس رہی ہوں ۔۔۔

میں کہہ رہی تھی کہ مجھے آپ اچھے لگنے لگے ہیں میرا دل آپکے لیے عشق محسوس کرنے لگا ہے ۔۔۔میں آپکی تصویر کو روز رات دل بھر کے تکتی ہوں پر دل ہے کے بھرتا ہی نہیں اور آپ جانے کیا سمجھ رہے تھے۔۔۔ خود ہی اپنی تصویر کی تعریف میں کہہ رہے تھے کہ اس میں تو میں غنڈا لگ رہا ہوں۔۔۔(تب میں کہنا چاہتی تھی کی لگ تو بلکل نہیں رہے، پر ہیں تو آپ واقعی ہی غنڈے جو آج تک کوئی نا کر سکا میرا وہ دل kidnap کر لیا آپ نے) بہت کچھ کہنا چاہتی تھی پر کہہ نہیں پائی میں کہتی بھی کیا تب آپ کی باتیں تو electric کی speed کو بھی مات دے رہیں تھیں اور میرے روح میں سرائیت کر رہی تھیں میں جو بہت بولنے والی آپکی باتوں کی اسپیڈ کو پکڑنا میرے لیے مشکل تھا مجھے تو چپ لگ گئ "ہوں" اور "ہاں" سے زیادہ کوئی لفظ جیسے مجھے یاد ہی نا ہوں تب۔۔۔

تب ہی آپی کی آواز آئی ابھی تک بیٹھی ہوئی ہو، جلدی کرو، لنچ کے بعد میں بھی کچھ دیر آرام کروں تمہاری تیمارداری کر کر کے تھک گئی ہوں ۔۔۔

تو تم کیوں مزید تھک رہی ہو یہ شازیہ کر لیتی ۔۔۔تم سے کہا تو تھا میرے ساتھ بیٹھو۔۔۔ مجھے بیٹھنا ہی نہیں ہے تمہارے ساتھ۔۔۔شام کو چلی بھی جاؤں گی۔۔۔

کہاں ؟ شام کی فلائٹ ہے کیا تمہاری (اسکی بات سنتے ہی مجھے فکر لاحق ہوگئ کے کس قدر مشکل سے اتنے وقت کے بعد تو آئی ہے اور اتنی جلدی چلی بھی جاۓ گی )

نہیں! پھوپھی کے پاس(اسکا یہ مختصر اور انوکھا جواب اس بات کی نشاندہی کر رہا تھا کہ وہ بہت زبردست والا غصہ ہے کیونکہ آپی اور پھوپھی کے پاس جانے کی باتیں کرے ، ہماری اکلوتی پھوپھی میری اکلوتی بہن کی ساس جو ہیں ۔۔۔ان دونوں کی ایک دوسرے سے کبھی نہیں بنی پھر بھی یہ دونوں ایک دوسرے کی ساس بہو بن بیٹھیں یہ کرشمہ ہوا باطفیلِ محبت کے جو آپی کو پھوپھی کے بیٹے سے ہوگئ شکر ہے یہ میری آپی کی بَلا کی آخری محبت تھی جو میری پھوپھی پر قہر بن کر ٹوٹی تھی اور دادا ابو کی پر ضرور حمایت پر فائنلی انجام کو پہنچی۔ ہاہاہاہا )

میں اب کمرے کے دروازے پر کھڑی تھی اپنے کپڑے ہاتھ میں لیے اور اس سے پوچھ رہی تھی ،تم مجھے تنگ کررہی ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ تم پھوپھی کے پاس جاؤ۔۔۔

ہاں چلی جاؤں گی انکے پاس

جب یہ ہوسکتا ہے کہ تم امی سے محبت کرنا چھوڑ چکی ہو تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مجھے پھوپھی بہت اچھی لگتی ہیں اب ۔۔۔

کوئی اور وقت ہوتا یا کسی اور سیچویشن پر آپی نے یہ کہا ہوتا تو میں اسکے اس آخری جملے پر لوٹ پوٹ کر ہنستی لیکن میرے دل کو اسکے پہلے جملے نے جیسے مُٹھی میں جکڑ لیا تھا کہ میں نے اب امی سے محبت کرنا چھوڑ دیا ہے کیا ایسا ممکن ہے کے میں امی سے محبت کرنا چھوڑ دوں امی سے میری محبت دیرینہ ہے میں نے امی سے زیادہ کسی کو چاہا ہی نہیں سب کی اپنی اہمیت تھی میری زندگی میں پر امی سے زیادہ کسی کو فوقیت دیا ہی نہیں ،پاپا جن کیلئے مجھ سے زیادہ کوئی اہم نہیں تھا مجھے ان سے بہت محبت تھی پر امی جتنی نہیں ۔۔۔ باوجود اسکے کہ امی کو میری محبت سے کبھی کوئی سروکار نا تھا ، مجھے پھر بھی امی سے ہی بے تحاشہ محبت تھی، یہ ایسی محبت تھی کہ مجھے تب کسی اور سے محبت کرنے کی فرصت ہی نہیں ملی ، پھر بھلے ہی میرے انکے درمیان جو کچھ ہو چکا میں اب بھی ان سے محبت کرتی ہو ، باوجود اُس سب کے میں انکو اُتنا قصوروار نہیں سمجھتی ہوں، جتنا کے میرے نزدیک ہمارے مرحوم پاپا قصوروار ہیں میں نے اب تک یہ کسی سے کہا نہیں پر اس چار سال کی مستقل سر کھپائی کے بعد میں اس کا نتیجہ یہ اخذ کرتی ہوں کہ ہر بات کے زمہ دار پاپا ہیں ۔۔۔

مرد کمزور پڑ جائے تو گھر کا شیرازہ بکھر ہی جاتا ہے۔۔۔ مرد کے مَنصب میں مُنصف ہونا بھی شامل ہے۔۔۔ پر میرے پاپا اپنے رشتوں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے۔۔۔ محبتوں کی تقسیم میں خائن ٹہرے۔۔۔ جبکہ وہ ایک بہت سے بھی بہت زیادہ فرنبردار بیٹے تھے ۔۔۔اللّٰہ انکی مغفرت کرے کے خطائیں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں۔۔۔

مجھے نہانے میں تقریباً موت آہی جاتی ہے پھر بھی میں ہر بار کی طرح زندہ سلامت نہا کر آچکی ہوں۔۔۔ اور میرے آنے تک آپی کچن سے فری ہوکر شاور لے کر فریش بیٹھی تھی۔۔۔

میں نے اسکے پاس بیٹھ کر اپنی baby elephant کیلئے گانا گنگنایا

میرے دوست قصۂ یہ کیا ہو گیا

سُنا ہے کے تو بے وفا ہوگیا

قیامت سے کم یار یہ غم نہیں

کہ تو اور میں رہ گئے ہم نہیں

تب ہی اس نے کہا کوئی نہیں

جوابی سونگ یہ تھا

تیرے بِن میں کچھ بھی نہیں

تیرے بِن میں کچھ بھی نہیں۔

تیرے سارے آنسو میرے

میری ساری خوشیاں تیری ۔۔۔

اور پھر وہ ہنسنے لگی کوئی نہیں ہم اب بھی ہم ہی ہیں بس یہ تم کاف سے کامران کاف سے کمینے انسان کی طرح گانا گا کرمجھے مت سناؤ۔۔۔ اسکی کوئی بھی بات اب مجھے اچھی نہیں لگتی جیسے وہ خود مجھے اچھا نہیں لگتا

میرے اختیار میں ہو تو اس ایک شخص کی ہستی کو ہماری زندگی سے کُھرچ کر مِٹا دوں تاکہ سب کچھ اُتنا بہتر تو ہو جائے جتنا کم از کم پہلے تھا ۔۔۔ لیکن بہت مجبور ہوں میں چاہ کر بھی ایسا نہیں کر سکتی۔۔۔

وہ اپنی بات کہتے کہتے ایکدم خاموش ہوگی کہ مجھے شاید برا لگے پہلے کی طرح کے کامران صاحب کو کوئی کچھ نا کہو کیونکہ کبھی میرا تصور تھا کامران صاحب خطا سے بھی خطا نہیں کرتے ۔۔۔ پر یہ صرف ایک تصور تھا اور وہ تصور ٹوٹ چکا۔۔۔

میں نے اسے چپ ہوتا دیکھ کر خود کہا بول لو بول لو دل کی بھڑاس نکال لو

مجھے کوئی فرق نہیں پڑرہا

اس فرق نہیں پڑ رہا ہے میں بھی مجھے اب بھی کتنا فرق پڑ رہا تھا ربّ ہی جانتا ہے۔۔۔

میں آپی کے ساتھ اسکی باتوں پر ہنس رہی تھی۔۔۔

اور جو آنسو دل پر گر رہے تھے تب وہ صرف میرے ربّ پر آشکار تھے

کامران نے مجھے اس قابل چھوڑا ہی نہیں کے میں انکی صفائی میں کچھ کہہ سکوں ۔۔۔

یہ ماننے کے باوجود کے بہت سی جگہ پر وہ قصور نہیں ہیں ۔۔۔ لیکن بہت سی جگہ بہت سے قصور انکے سر بھی ہے ۔۔۔

ربّ العلیم ہی جانے کے صحیح معنوں میں قصوروار کون ہے ۔۔۔ میں تو بس اتنا جانتی ہوں ہر صورت میں سزا صرف میرے حصّے میں آئی ۔۔۔

Continued....