Download Chereads APP
Chereads App StoreGoogle Play
Chereads

Atish e Meher( Urdu)

Munaza_Niaz
--
chs / week
--
NOT RATINGS
1.1k
Views
VIEW MORE

Chapter 1 - پہلا ٹکراؤ

Episode.1

رات کا دوسرا پہر چل رہا تھا چاندنی اپنی دھیمی روشنی بکھیر رہی تھی جیسے رات کے سکون کا حصہ بن چکی ہو لیکن ایک شیطان ابھی بھی جاگ رہا تھا

مہر۔۔۔۔

اس نے دھیرے سے ایک کمرے کا دروازہ دھکا دے کر کھولا اندر اندھیرا تھا صرف ہلکی سی روشنی کا جھونکا کھڑکی سے اندر گر رہا تھا جو سیدھا سوئی عینی کے چہرے کو تھوڑا روشن کر رہا تھا

"عینی!"

مہر نے بہت دھیمی آواز میں بلایا

کوئی حرکت نہیں۔

وہ تھوڑا اور اندر آئی

" عینی۔۔۔ اٹھ جا "

اس نے اس بار ذرا زیادہ بھیانک انداز میں کہا عینی نے ایک پل کے لیے تھوڑی سی حرکت کی اور بس۔ مہر کے شیطانی مسکراہٹ اور بھی گہری ہوئی اب اصلی اٹیک کرنے کا وقت تھا اس نے اپنی آواز کو اور بھی گہرا کرتے ہوئے کہا

" عینی اٹھ جا تیرا وقت ختم ہو گیا ہے "

لیکن جیسے ہی اس نے یہ کہا ایک ایسا واقعہ ہوا جو اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا عینی نے بنا آنکھیں کھولے اپنا مہندی سے بھرا ہاتھ ہلایا اور تھپ۔۔۔

سیدھا مہر کے چہرے پر مہر کا دماغ فریز ہوا اس نے ہلکی سی گرمی محسوس کی اور پھر ایک عجیب سی سمیل

مہندی ۔۔۔۔ اس نے فورا ہاتھ سے اپنا گال چھوا اور جیسے ہی سمجھ آیا کہ یہ کیا ہوا ہے اس کا جسم ایک سیکنڈ کے لیے کانپ گیا عینی نیند میں تھی مگر اس کے ہاتھ کا نشان مہر کے چہرے پر اپنی پوری شناخت چھوڑ چکا تھا

ایک سیکنڈ

دو سیکنڈ

تین سیکنڈ ۔۔۔۔۔اور پھر مہر بنا ایک لفظ کہے بھی نہ کسی ری ایکشن کے الٹرا_ سپیڈ سے کمرے سے بھاگ گئی پیچھے دروازہ ہلکی آواز کے ساتھ بند ہوا اور عینی نے ایک بار اور اپنی کروٹ بدلی لیکن پھر واپس گہری نیند میں ڈوب گئی اسے اب تک اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس کے ہاتھ نے کیا کر دیا ہے دوسری طرف مہر تیزی سے کمرے میں گھسی دروازہ بند کیا سانس پھولنے لگی

" میں عینی کو ڈرانے گئی تھی یا وہ مجھے"

اس نے آئینہ دیکھا اور چیخ نکل گئی اس کا ایک پورا گال مہندی سے بھرا تھا

" یا اللہ ! کل مہندی ہے اور یہ یہ کیا ہو گیا"

اس نے جلدی سے گال پونچھنے کی کوشش کی مہندی مزید گہری ہو گئی

" ارے یہ کون سی ghoost مہندی تھی "

اس نے ہیئر ڈرائر چلایا لوشن لگایا لیکن کچھ نہیں ہوا مہندی اس کے چہرے کا حصہ بن چکی تھی اس نے آئینہ کو گھور کر دیکھا جیسے اس کا چہرہ اس کے خلاف سازش کر رہا ہو اس کا موڈ بالکل خراب ہو چکا تھا عینی کو تو میں چھوڑوں گی نہیں اس نے عینی سے ہی بدلہ لینے کی ٹھان لی لیکن پھر۔۔۔

وہ بیچاری تو سو رہی تھی اس نے تو بس نیند میں ہاتھ ہلایا تھا مطلب یہ سب میری وجہ سے ہوا اس کا منہ حیرت سے کھل گیا میں ڈرانے گئی تھی اور خود کا چہرہ خراب کروا کر آگئی مہر کو رونا بھی آ رہا تھا اور غصہ بھی کل مہندی تھی اور اس کا چہرہ خراب ہو چکا تھا کیا وہ اس منہ کے ساتھ فنکشن میں جائے گی

" مجھ سے بڑی بے وقوفی دنیا میں کوئی نہیں ہے "

اس نے چیخ مار کر اپنا سر بیڈ پر پٹک دیا

☆☆☆

آتش اپنے آفس میں بیٹھا ایک فائل دیکھنے میں مصروف تھا اس کا آفس نہایت شاندار تھا ہر چیز نفیس اور ایلیجنٹ تھی وہ نفاست پسند شخص تھا اگر اس کی کوئی چیز ادھر سے ادھر ہوتی تو پورے سٹاف کی شامت آ جاتی اس کی آنکھوں کا رنگ گہرا بھورا تھا جن میں گہری سنجیدگی تھی اس کے سیاہ جیل سے سیٹ کیے ہوئے بال ہلکی بڑھی شیو اور گوری رنگت کے ساتھ تیکھے نقوش میں بہت ہینڈسم لگتا تھا وہ زیادہ مسکراتا نہیں تھا لیکن جب مسکراتا تو سامنے والے کا دل ضرور چھڑ جاتا لیکن ایسا کبھی کبھی ہوتا تب ہی دروازہ بنا دستک دیے کھلتا گیا

" اے میرے دکھیارے دوست لگتا ہے تجھے مجھے یاد کرنے کا بھی وقت نہیں ملتا سوچا خود ہی مل لوں"

امان بے تکلفی سے کہتا اس کے سامنے کرسی دھکیل کر بیٹھا

" مجھے لگا تھا تو تمیز سیکھنے کا ارادہ کرے گا لیکن تو آج بھی وہی بے وقوف ہے یہ میرا آفس ہے تیرا چائے کا ڈھابہ نہیں"

اس نے فائل بند کر کے ایک ٹھنڈی نظر اس پر ڈالی

" اوہو اتنی خشک مزاجی لگتا ہے کوئی اور میری جگہ تیرا دماغ خراب کر رہا ہے ویسے سچ بتا زندگی میں یہ فائل اور غصہ رکھا ہے یا کبھی کبھی ہنس بھی لیتا ہے کیا دن آ گئے ہیں پہلے تو مجھے دیکھتے چھوٹی سی ہی سہی ایک مسکراہٹ دے دیا کرتا تھا اب تو لگتا ہے اگر تو ہنستے ہوئے پکڑا گیا تو تجھے کوئی سزا مل جائے گی مگر کوئی نہیں میں ہوں نا تو نہ بھی بولے میں تیرے حصے کی باتیں بھی کر لوں گا "

آتش نے بہت صبر سے اس کی بکواس سنی تھی

" کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ یہاں کون سا کام اپ کو کھینچ لایا ہے؟"

ضبط سے پوچھا گیا

" یار بس دل کیا تیرا رنگ روپ دیکھ لو زیادہ دن ہوئے تھے تیری خوش مزاج شکل دیکھے ہوئے پر اپ دیکھ لیا تو لگ رہا اچھا ہوتا نہ ہی دیکھتا "

امان نے ہنستے ہوئے کہا آتش نے غصہ سے اس کو دیکھا

" اگر فضول بکواس ختم ہو گئی ہو تو اصل بات بتاؤ "

" اصل بات یہی ہے کہ مجھے بھوک لگی تھی سوچا تیرا آفس قریب ہے تو تجھ سے مفت میں لنچ کھا لو"

آتش نے ابرو اٹھا کر اس کو دیکھا

" تو تجھے لگتا ہے میں تجھے لنچ کھلانے یہاں بیٹھا ہوں "

امان نے مسکرا کر اس کو دیکھا

" ہاں بالکل مجھے پتہ ہے تیرا غصہ صرف شکل کا ہے دل کا نہیں "

" میرا فلحال تجھے کچھ بھی کھلانے کا کوئی ارادہ نہیں میری ایک میٹنگ شروع ہونے والی ہے رات کو مہندی کے فنکشن پر ملاقات ہوگی"

آتش کہتے ساتھ کھڑا ہو گیا امان بھی ساتھ ہی کھڑا ہوا

" اچھا یار کافی تو پلا ہی سکتا ہے"

" بالکل کیوں نہیں میرے آفس کا کیفے تیرے لیے ہی تو بنا ہے "

اور باہر نکل گیا امان بھی مسکراتے ہوئے کندھے اچکاتا اس کے پیچھے ہو لیا

☆☆☆

پورے گھر میں چہل پہل سی تھی آہستہ آہستہ گھر مہمانوں سے بھرنا شروع ہو گیا وہ اپنا چہرہ دوپٹے میں چھپائے تیز تیز قدم اٹھاتی کچن میں گھس گئی تھی جہاں اس کی پیاری امی جان اور مشعل اسے کاموں میں مصروف دکھائی دی

" امی !"

اس نے تڑپ کر انہیں پکارا انہوں نے چونک کر اسے دیکھا ساتھ مشعل بھی چونکی تھی

" امی!"

آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لائے پھر سے پکارا

" پھوٹ بھی دو مہر کیا ہوا ہے؟"

وہ ڈر گئی

" میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی امی"

اس کے اگلے لفظوں نے طیبہ بیگم کے پیروں تلے سے زمین نکال دی مشعل نے بھی بے یقینی اسے دیکھا

" کیا کہا ؟"

انہوں نے دہل کر دوبارہ پوچھا

" یہ دیکھیں امی"

اس نے جلدی سے دوپٹہ چہرے سے ہٹا کر اپنا گال ان کے سامنے کیا

" کیا میں اس مہندی لگے منہ کے ساتھ مہمانوں کے سامنے جاؤں گی"

اس کی پوری بات سنتے ہی طیبہ بیگم نے اپنا رکا ہوا سانس بحال کیا جبکہ مشعل کی ہنسی بے ساختہ تھی

" بے غیرت دفعان ہو جا یہاں سے کیوں میری جان نکالنے پر تلی ہوئی ہے"

ان کا بس نہیں چل رہا تھا ہاتھ میں پکڑا کفگیر اس کی کمر میں جڑ دیں گئے ان کے تیور دیکھ کر مہر تیزی سے باہر بھاگ گئی

" میں دیکھتی ہوں خالہ"

مسکراہٹ دبائے مشعل کچن سے باہر نکل آئی جیسی وہ باہر نکلی اس کا کندھا سامنے سے عجلت میں آتے زریاب کے سینے سے لگا

" ارے ارے دیکھ کر "

زریاب نے فورا اسے تھاما

" او سوری میں نے دیکھا نہیں "

وہ پیچھے ہٹی

" اگر دیکھ لیتی تب بھی ٹکرا ہی جاتی، بس جان بوجھ کر ۔کیوں صحیح کہہ رہا ہوں نا؟"

وہ مسکرایا

" مجھے کیا ضرورت ہے جان بوجھ کر ٹکرانے کی "

مشعل نے نروس ہو کر اس کو دیکھا زریاب کی نظریں اس کی نظروں سے ملی

" ہاں بالکل میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ تمہیں بھلا مجھ سے ٹکرانے کی کیا ضرورت تھی لیکن پتہ ہے کیا مجھے بس تمہیں سنبھالنے کا موقع چاہیے تھا اور وہ مجھے مل گیا "

زریاب اسی طرح مسکراتے ہوئے اس کے قریب ہوا مشعل بری طرح سٹپٹائی ابھی وہ اس کا ہاتھ پکڑتا مشعل بھاگ کھڑی ہوئی اس کی دھڑکنیں تیز ہوئی تھی سیڑھیوں کی آخری دہانے پر پہنچ کر اس نے مڑ کر زریاب کو دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا اگلے ہی پل وہ غائب ہوئی تھی جبکہ زریاب ہنستے ہوئے پلٹ گیا تھا

☆☆☆

مشعل جب کمرے میں داخل ہوئی تو سامنے مہر بگڑے تیوروں سے عینی ایمل اور مومنہ کو گھور رہی تھی جو بیڈ پر رات کے فنکشن میں پہنے جانے والے کپڑے رکھ رہی تھی ساتھ ساتھ باتیں بھی جاری تھی سب کو پتہ چل چکا تھا کہ عینی کے ہاتھ پر لگی مہندی اور مہر کا چہرہ کیسے خراب ہوا تھا

" مشعل یہ دیکھو ہم نے اپنے سارے ڈریسز رات کے لیے نکال لیے ہیں کیا تم نے اپنا ڈریس نکا لیا ہے "

ایمل نے جھٹ سے اسے پکڑ کر بیڈ پر بٹھایا

" ہاں میں نے نکال لیا ہے، اوہ عینی تمہارا ہاتھ تو خراب ہو گیا ہے "

ایمل کو جواب دے کر اس نے اینی کو کہا جو روہانسی ہو گئی اس کے اکلوتے بھائی کی شادی تھی نا

" یہ سب مہر کی بچی کے کام ہیں بڑی آئی تھی مجھے ڈرانے ،اچھا ہوا تمہارے ساتھ بلکہ بہت ہی اچھا ہوا "

عینی نے مہندی کا غصہ مہر پر نکالا

" ایک کام کرو اپنا ہاتھ کاٹ دو نہ رہے گا ہاتھ نہ رہے گا افسوس"

مہر نے بھی بھنا کر جواب دیا

" بس بھی کرو تم دونوں اور کتنا لڑوگی ویسے اتنا بھی خراب نہیں ہوئی ٹھیک ہے"

مشعل نے عینی کو کہا پھر مہر کو دیکھا

" تم بھی ٹینشن مت لو بس ذرا بیس گہرا کر لینا مہندی نظر نہیں آئے گی"

مہر ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی

" ویسے مجھے لہنگا نہیں لینا چاہیے تھا دیکھو نا مہر کتنی بری لگوں گی میں "

مومنہ نے کہا اس کا اشارہ اپنی جسامت کی طرف تھا

" کچھ نہیں ہوتا، اتنی بھی موٹی نہیں ہو تم لوگوں کی باتوں پر زیادہ دھیان مت دیا کرو ورنہ دماغ خراب ہو جاتا ہے"

مہر نے مومنہ کر کہا

" صحیح کہہ رہی ہے مہر تم ٹینشن مت لو، ویسے میری کزن تو بہت پیاری اور بہت ہی کیوٹ ہے وزن کا کیا ہے کچھ دنوں میں اور بڑھ جائے گا "

ایمل نے چہک کر کہا سب کی ہنسی چھوٹ گئی

" اچھا اچھا بس چلو جلدی سے تیار ہو جاؤ مہر تم بھی اپنا موڈ ٹھیک کرو تمہیں یاد ہے نا تم میں اور عینی نے گروپ ڈانس بھی کرنا ہے میں اب چلتی ہوں تم سب بھی جلدی سے ریڈی ہو جاو "

ان کو کہتی مشعل کمرے سے باہر نکل گئی مہر کو پتہ تھا کہ میک اپ کے باوجود بھی مہندی نہیں چھپے گی پھر کچھ سوچ کر وہ مسکرائی اور اپنا لہنگا سنبھالتی باتھ روم میں گھس گئی

☆☆☆

زایان خان رضا خان اور ام نایاب یہ تین بہن بھائی تھے تہمینہ اور طیبہ بیگم دونوں بہن اور ان کے فرسٹ کزن اور بیویاں تھیں تہمینہ بیگم کی شادی زایان سے ہوئی تھی ان کے تین بچے تھے سب سے بڑا آتش پھر مشعل اور پھر علی کچھ عرصہ قبل ہی زایان خان کا انتقال ہوا تھا آتش کی پڑھائی ابھی مکمل ہوئی تھی اور یہ حادثہ ہو گیا وہ اپنے بابا سے بہت محبت کرتا تھا وہ ہائر ایجوکیشن کے لیے باہر جانا چاہتا تھا بابا کے اچانک انتقال پر اس نے اپنا خواب ترک کر دیا اور ان کے آفس جانا شروع کر دیا گھر اور آفس کی سارے ذمہ داری اس اکیلے پر آن پڑی تھی علی ابھی کالج کا اسٹوڈنٹ تھا آتش نے اسے فلحال ہر کام سے آزادی دے رکھی تھی آتش کے لیے اس کی پڑھائی سے زیادہ امپورٹنٹ کچھ نہیں تھا جبکہ مشعل پی ایچ ڈی کر چکی تھی ایک قلیل عرصے میں اس نے بزنس کی دنیا میں اپنا ایک نام بنا لیا تھا وہ حد سے زیادہ سنجیدہ اور اپنے کام سے کام رکھنے والا شخص تھا پورا سٹاف اس کے کنٹرول میں ہوتا ہر کسی کو اپنی حدود کا پتہ تھا وہ زیادہ کسی سے فری بھی نہیں ہوتا تھا پھیلاوا آور ہنگامہ اسے اس سب سے سخت نفرت تھی وہ غصہ نہیں کرتا تھا مگر جب کرتا تو سامنے والے کو تھوڑا بہت ہارٹ اٹیک آ ہی جاتا تھا بس ایک امان ہی تھا جس پر اس کے غصے کا کوئی اسر نہیں ہوتا تھا بقول امان کے آتش نے غصے میں پی ایچ ڈی اور محبت میں تو ماسٹرز تو ضروری ہی کر رکھا ہے اس کے بعد رضا خان جن کی شادی طیبہ بیگم سے ہوئی تھی ان کے بھی تین بچے تھے سب سے بڑا زریاب پھر مہر اور سب سے چھوٹی ایمل، زریاب کا رشتہ مشعل سے طے پا چکا تھا سب کو لگتا تھا کہ یہ ارینج میرج ہوگی جو کہ غلط تھا مشعل تو اس کی بچپن کی چاہت تھی پھر مہر جو ایمل سے دو سال بڑی تھی وہ یونی کی اسٹوڈنٹ تھی اس کی پڑھائی بھی بس ختم ہونے والی تھی ایمل اور مومنہ کالج جاتی تھی مہر بچپن سے ہی بہت شرارتی تھی گھر ساتھ ساتھ ہونے کے وجہ سے وہ ہر روز آتش ولا میں آن دھمکتی جہاں اس کی ہونے والی بھابی اور عزیز از جان کزن اور سہیلی جو موجود تھی وہ دونوں مل کر گھر کا ایسا حشر کرتیں کہ بیچاری خالہ کو سارا دن میڈ کے ساتھ مل کر صفائی کرنی پڑتی آتش کو تو دیکھ کر بہت غصہ آتا مگر ضبط کر جاتا کیونکہ بقول امی کے جب گھر میں مہمان آتے ہیں تو ان کا بہت خیال رکھنا چاہیے خون کے گھونٹ بھرتے وہ محض سوچ کر رہ جاتا کہ ایسا کون سا مہمان ہے جو روز روز منہ اٹھائے چلا آتا ہے اسے اس چالو میٹر مہر ماہ سے سخت چڑ تھی جو اتنا بولتی کہ سر میں درد شروع ہو جاتا مگر وہ خاموش نہ ہوتی اس نے اسے کبھی خاموش اور سکون سے بیٹھے نہیں دیکھا تھا مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ قسمت اس کے ساتھ کون سا کھیل کھیلنے جا رہی ہے سب سے چھوٹی ام نایاب تھی ان کے بھی تین ہی بچے تھے سب سے بڑا عبید جس کی شادی زور و شور سے جاری تھی اس کے بعد عینی اور مومنہ تھے عینی بھی اپنی پڑھائی مکمل کر چکی تھی آج مہندی کا فنکشن تھا جو کہ بڑا زبردست ہونے والا تھا نایاب پھوپھو کا گھر بھی اسی کالونی میں تھا ان کے گھر کا لان چھوٹا ہونے کی وجہ سے مہندی اور اس کے علاوہ چھوٹے موٹے فنکشن آتش ولا میں رکھے گئے جو اس کالونی کا سب سے بڑا خوبصورت اور نمایاں بنگلہ تھا باقی کے فنکشن ہال میں ہونا تھے

☆☆☆

" تم سب ابھی تک تیار نہیں ہوئی، سب مہمان آ چکے ہیں جلدی سے تیار ہو کر فورا نیچے پہنچو اور تم عینی یہ گجرے لے کر نیچے نایاب آپا کو دے آؤ انہوں نے عبید کے سسرالیوں کے لیے منگوائے تھے اور یہ والے گجرے تم سب پہن لینا "

طیبہ کمرے میں داخل ہوتے ہی بول پڑی ان کے ہاتھوں میں گجرے کے ٹوکرے تھے ایک وہی ان سب کے لیے رکھ دیا دوسرا عینی کو تھما دیا جو تیار ہو چکی تھی

" جی میں لے جاتی ہوں ممانی" ان کے ہاتھ سے ٹوکرا لے لیا وہ ٹوکرہ سنبھالتی کمرے سے باہر نکلی طیبہ پہلے ہی جا چکی تھی مزے سے گنگناتی وہ سیڑھیاں اتر کر جیسے ہی برآمدے میں پہنچی کہ کسی سے بری طرح ٹکرا گئی سارے گجرے ادھر ادھر بکھر گئے

" آنکھوں پر بٹن لگا کر گھوم رہے ہو کیا؟"

وہ بھنا گئی

" نہیں چشمہ لگا کر گھوم رہا ہوں تمہاری طرح آنکھیں بند کر کے نہیں چل رہا "

وہ اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولا جو گجرے اٹھانے لگی تھی

" شکل سے تو اندھے ہی لگ رہے ہو "

عینی نے تانا مارا

" اچھا؟ تو تمہارے لیے ہی اندھا بن گیا ہوں "

امان نے ہنسی دباتے ہوئے کہا

" تم خود کو سمجھتے کیا ہو ہاں ؟"

وہ چڑ کر بولی

" تمہارا ہونے والا ہیرو"

وہ مذاق میں جھکتے ہوئے بولا

" بکواس بند کرو ورنہ میں تمہارا چشمہ توڑ دوں گی "

غصے سے کہتے وہ کھڑی ہوئی

" ارے توڑنے کا کیا فائدہ میرے دل کی طرف پھر سے جوڑنا پڑے گا"

امان نے جیسے اس کا مذاق اڑایا عینی کی گال سرخ ہوئے

" تمہارا دل تمہاری ان جھوٹی لائنز سے ہی ٹوٹ جائے گا "

" اچھا تو چلو نیا ڈائیلاگ سوچ لیتا ہوں تم بس ٹکراتی رہنا"

عینی کا دل کیا ہاتھ میں پکڑا ٹوکرا اس کے سر میں دے مارے

" خواب دیکھتے رہنا بس"

امان نے ہاتھ میں پکڑا آخری گجرا اس کی طرف بڑھایا " اور تم بس دکھاتی رہنا"

گجرا جھپٹ کر عینی تیزی سے چلی گئی اور وہ مسکرا دیا

☆☆☆

عبید بھائی کے سسرالی آ چکے تھے اصولا نایاب پھوپھو کو حریم(دلہن) کے گھر جانا تھا مگر انہوں نے چھوٹے گھر کا بول کر دونوں گھراوں کے فنکشن اپنے بڑے بھائی کے گھر رکھ دیے تھے حریم کی والدہ ان کی نند بھی تھی۔ان کو اعتراض تو ہوا تھا مگر بعد میں مان گئی تھی مہندی کی رسمیں شروع ہو چکی تھی تھوڑی دیر بعد جب سب فارغ ہوئے تو لان میں جلتی روشنی بجھ گئی سب کی مشترکہ اوہ سنائی دی تھی اسٹیج کے بالکل سامنے ایک سپاٹ لائٹ آن رکی تھی وہ لہنگا سنبھالتی آہستہ سے قدم اٹھاتی اس روشنی پر آ کر ٹھہر گئی اس نے تھوڑی تک گھونگھٹ ڈال رکھا تھا سب کی نظریں اس پر جمی تھی

" او رے پیا ۔۔"

اس نے رقص کے لیے ہاتھ اٹھایا تھا آتش باقی سب کے ساتھ بیٹھا سانس روکے اسے دیکھے گیا اچانک ہی لائٹ واپس آ گئی تھی اس کے ایک طرف مشعل دوسری طرف عینی تھی مہر کے بر عکس انہوں نے دوپٹہ کندھے پر سیٹ کر رکھا تھا

" اڑنے لگا کیوں۔۔۔"

گانا شروع ہونے کے ساتھ ان کا رقص بھی شروع ہو چکا تھا آتش بار بار پہلو بدل رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا جا کر ڈی جے والے کا سر سمیت اس کا سارا سسٹم پھوڑ ڈالے تیزی سے اٹھ کر وہ اندر چلا گیا تھوڑی دیر بعد ان کا ڈانس ختم ہوا تو دو ٹیمیں بن گئی ایک دلہا والے اور دوسرا دلہن والے ان کو باری باری گانا سنانا تھا دلہن والوں کی طرف سے حریم کی چھوٹی پہن نے ٹن ٹنا ٹن ٹن ٹن ٹارا گا کر سب کو صدمے کی طرف دھکیل دیا

" ابے یار کوئی اس کو چپ کروائے ورنہ میں کوما میں چلا جاؤں گا " علی نے دہائی دی

" میں گاوں گا"

امان بڑے کروفر سے مائک سنبھالتا کھڑا ہو گیا

" میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں"

مہر مشعل کے کان میں بولتی کھڑی ہو گئی مشل نے سر ہلا دیا اس کی اٹھ کر جاتے ہی کوئی آہستہ سے اس کے پہلو میں آ بیٹھا وہ چونک گئی

" میں تمہیں کچھ بتانے آیا ہوں"

وہ مسکرایا

" کیا؟"

" تم بہت حسین لگ رہی ہو "

پھر اس کی طرف جھکا" ماشاءاللہ "

آنکھوں ہی آنکھوں میں اس کی نظر اتاری

" تھینک یو" مشعل نے دھیرے سے کہا

" یہ کیا صرف خالی خولی تھینک یو؟"

" تو پھر کیا کہوں؟"

اس نے مسکراہٹ دبائی

" بھئی تم یہی کہہ سکتی تھی کہ آپ تو مجھ سے بھی زیادہ خوبصورت لگ رہے ہیں تمہیں تو تعریف کرنی بھی نہیں آتی رومانس کے خاک کرو گی "

وہ ہنسی دبائے اسے دیکھے گئی

" تیرا ہونے لگا ہوں کھونے لگا ہوں اب میں سونے لگا۔۔۔۔"

امان نے گانا شروع کرتے ہی اس کا انت کر دیا سب ایک ساتھ چیخ اٹھے

" اوہ فلاپ سنگر کیوں گانے کا قتل کر رہا ہے یہ دیکھ ہمارے کانوں سے خون نکلنے کی کسر رہ گئی ہے کیا تمہاری سائیڈ پر کوئی ڈھنگ کا سنگر ہے بھی یا نہیں "

دلہن والوں کی طرف سے کوئی چلایا امان کا پارہ چڑھا

"ہمارا ایک سنگر ابھی باقی ہے جو تمہاری ٹن ٹنا ٹن والی باجی سے زیادہ اچھا گاتا ہے"

مائک میں تقریبا چلا کر کہتے وہ زریاب کے سر پر جا پہنچا

" کیا کہا میں؟"

زریاب نے بے یقینی سے اپنی طرف اشارہ کیا

" نہیں ابھی تمہارا ہونے والا سالا آئے گا اور وہ گا کر دکھائے گا شرافت سے اٹھو اور ہماری عزت کو بچا لو"

اسے آنکھوں میں اشارہ بھی کر دیا ایک نظر مشعل کو دیکھتے اس نے مائیک پکڑ لیا

" یہ گانا اس کے نام جو میرے دل میں رہتی ہے " مسکرا کر کہتے وہ کھڑا ہو گیا مشعل اس کی بات سن کر تھوڑا بلش ہوئی تھی عینی اس کے ساتھ بیٹھ کر چھیڑنے لگی وہ اب اسٹیج کے سامنے کھڑا تھا سب لوگ اس پر نظر جمائے ہوئے تھے

اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم

تمہارے بنا ہم بھلا کیا جییں گے

اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم

تمہارے بنا ہم بھلا کیا جییں گے

دیا حوصلہ جس نے جینے کا ہم کو

ایک خوبصورت سا احساس ہو تم

جو مٹتا نہیں دل سے تم وہ یقیں ہو

ہمیشہ جو رہتی ہے وہ آس ہو تم

یہ سوچا ہے ہم نے کہ اب زندگی بھر

تمہاری محبت کو سجدہ کہیں گے

اکیلے نہ جانا۔۔۔

وہ آنکھیں کبھی بند کرتا کبھی کھول کر خود تکتی اس اپسرا کو دیکھتا اس کی آواز بہت اچھی تھی

" ایک نائنٹیز کا وحید مراد تھا ایک یہ 20 کا وحید مراد ہے تمہارا وحید مراد "

عینی نے اسے چھیڑا وہ سانس بھی نہ لے سکی وہ اسے پہلی مرتبہ دل کی نظروں سے دیکھ رہی تھی اس کے ہونٹوں پر خوبصورت سی مسکراہٹ بکھر گئی

فسانہ جو الفت کا چھیڑا ہے تم نے

ادھورا نہ رہ جائے یہ سوچ لینا

بچھڑ کے زمانے سے پایا ہے تم کو

کہیں ساتھ تم بھی نہ اب چھوڑ دینا

یہی ہے تمنا یہی التجا ہے

اور اس کے سوا ہم بھلا کیا کہیں گے

اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم

تمہارے بنا ہم بھلا کیا جیے گے

" ارے واہ تو تو چھپا سنگر نکلا "

جب وہ گا کر سب کی واہ واہ سمیٹ کر اپنی جگہ پر بیٹھا تو امان بولے بنا نہ رہ سکا وہ مسکرا دیا تھا پھر اس نے نظر اٹھا کر ساتھ بیٹھی مشعل کو دیکھا اور پھر ہلکی سی سرگوشی کی

" تم وہی ہو جس کو میں نے ہر بار بے وجہ سوچا ہے "

اس کا لہجہ اس کا انداز وہ فورا اٹھ کر چلی گئی ذریاب کی نگاہوں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا

☆☆☆

اپنے کمرے میں پہنچ کر اس نے کوٹ اتار کر صوفے پر رکھا باتھ روم جا کر اس نے چہرہ دھویا تولیے سے چہرہ تھپتھپاتے اس نے آئینہ میں خود پر نظر ڈالی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں پر کسی اور کا عکس ابھرنے لگا اس نے پہلے حیرت اور پھر یقینی سے آئینے کو چھوا عکس کسی دھوئیں کی طرح ہوا میں محلول ہو گیا وہ تیزی سے مڑا کوٹ اٹھا کر پہنا اور پھر کمرے سے باہر نکل گیا اس کا دماغ بالکل بلینک ہو چکا تھا تیز تیز قدم اٹھاتے وہ کسی سے بری طرح ٹکرا گیا اسے تو کچھ نہیں ہوا مگر اس سے ٹکرانے والا تیورا کر گرا تھا

" اللہ پوچھے تم سے میری ہڈیاں توڑ دی ظالم انسان "

وہ بلبلائی آتش پہلے تو غائب دماغی سے اسے دیکھتا رہا کہ آیا بھی ہوا کیا ہے پھر آہستہ سے اس کا دماغ اپنے ٹھکانے پر آیا سامنے والی کو دیکھ کر اس کی کنپٹیاں سلگ گئی جیسے ہی وہ ہائے ہائے کرتی کھڑی ہوئی آتش نے اسے بازو سے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگا دیا

" ار یو میڈ؟"

اس کا انداز طیش لیے ہوئے تھا وہ ہونک اس کی شکل دیکھنے لگی

" اس میں میری کوئی غلطی نہیں ہے پلیز میرا بازو چھوڑیں "

اندر سے اس کے انداز پر وہ تھوڑی سہم گئی

" دیکھ کر نہیں چل سکتی ہاں؟ اگر ہوش ٹھکانے پر نہیں ہیں تو میں لگاؤں گا اور پھر ایسے لگاؤں گا کہ تا عمر یاد رکھو گی"

جھٹکے سے اس کا بازو جوڑا آنکھوں میں شرارے سے دوڑنے لگے تھے پتا نہیں کیوں وہ جب جب مہر کو دیکھتا اس کا دماغ گھوم جا تا تھا

" وہ میں۔۔۔ میں ۔۔۔۔وہ ۔۔"

وہ ہکلائی

" ہاں تم وہ کیا ؟"

وہ ایک قدم آگے ہوا کہ بس اب تو اس کا گلا دبانا ہی دبانا ہے یا اللہ مجھے اس آدم خور سے بچا لے دل ہی دل میں کہتے اس نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دبایا گھونٹ ابھی تک منہ پر تھا

" آئندہ اگر تم میرے ارد گرد بھی بھٹکی تو بہت برا ہوگا "

وہ اس کا گھونگھٹ ہٹا کر اس کی شکل دیکھنے کا ارادہ ترک کیے پیچھے ہو گیا مہر نے تھوک نگلا جیسے ہی وہ پیچھے ہوا وہ بھاگ کھڑی ہوئی اس نے مڑ کر اسے دیکھنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی جس نے اس کا چہرہ دیکھنے کی خواہش کی تھی

" پاگل کہیں کی"

سر جھٹک کر وہ بھی مڑ گیا

جاری ہے