Download Chereads APP
Chereads App StoreGoogle Play
Chereads

"تریاقِ عشق

Awan_3659
7
chs / week
The average realized release rate over the past 30 days is 7 chs / week.
--
NOT RATINGS
93
Views

Table of contents

VIEW MORE

Chapter 1 - Unnamed

تریاق عشق۔ ۔

دن گزرتے جا رہے تھے اور شاہ ہاؤس میں سب اپنی خوشگوار زندگی گزار رہے تھے امنہ بیگم اور سادیہ بیگم کچن میں ناشتہ بنا رہی تھی مومنہ باجی جو کہ ان کی ہیلپر تھی ناشتہ بنانے میں ان کی مدد کر رہی تھی اتنے میں سب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھنا شروع ہو گئے ـ زوہان۔ زوہان جلدی اٹھ جاؤ میں تمہیں دوسری دفعہ اٹھانے ایا ہوں اس دفعہ سکندر شاہ نے غصے میں کہا بہت سکندر شاہ جن کی دھاڑ سے پورا گھر لرز جاتا تھا لیکن دوسری طرف ان کا یہ بیٹا زوہان جس پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا یہ ان کی بات ایک کان سے سنتا اور دوسرے کان سے نکال دیتا یہ ان سب سے الگ تھا یہ اپنی لائف کو بالکل بھی سیریس نہیں لیتا تھا زوہان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دفعہ پھر غصے بھری اواز کمرے میں گونجی اس تیسری اواز پر زہان نے اپنی انکھیں کھولی اور اسے دیکھتے ہی سکندر صاحب بھی نیچے اگئے لیکن جیسے اس نے دیکھا کہ اس کے پاپا کمرے سے باہر نکل گئے ہیں پھر سے کروٹ بدلی اور سو گیا اہستہ اہستہ سب نفوس کھانے کے ٹیبل پر اکٹھا ہو چکے تھے ما سوائے زہان کے سکندر شاہ کو زوہان کی اس حرکت پر بہت غصہ اتا تھا اب اس کی یہ عادت روزانہ کا معمول بن چکی تھی ۔ امنہ بیگم اور سعدیہ بیگم سب کو ناشتہ سرو کر رہی تھیں اتنے زوہان بھی ریڈی ہو کر نیچے پہنچ چکا تھا

دوسری طرف سکندر شاہ کا بڑا بیٹا اریان شاہ جو کہ بالکل اپنے باپ پر گیا تھا سنجیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سمجھدار بھی تھا اور زوہان جب بھی کوئی بڑی غلطی کرتا تو اس کو اس غلطی کی وجہ سے سکندر شاہ سے پڑھنے والی ڈانٹ سے اریان شاہ ہی بچاتا اریان شاہ کی ڈگری مکمل ہو چکی تھی اب وہ سکندر شاہ کے ساتھ بزنس سنبھال رہا تھا ۔۔۔۔۔

بھائیو۔ ایک دفعہ پھر زوہان کی اواز ٹیبل پر موجود تمام نفوس کو اپنی طرف متوجہ کرنے پر مجبور کر گئی ۔ ہمممم۔۔۔۔۔۔ اریان نے ناشتہ کرتے ہوئے جواب دیا۔ بھائیو وہ اپ سے کہنا یہ تھا کہ اج اپ میرب اپی کو یونی چھوڑ دیں گے ۔ کیوں تم نے کدھر جانا ہے وہ ایکچولی میری کلاس اج لیٹ سٹارٹ ہوگی تو میں زیمل لوگوں کو کالج چھوڑ کر اپنے ایک دوست کے ہاں جاؤں گا ادھر سے پھر ہم مل کر یونی ائیں گے اس لیے اگر میرب اپی میرے ساتھ گئی تو ان کا لیکچر مس ہو جائے گا ٹھیک ہے چھوڑ دوں گا اریان نے سنجیدگی سے جواب دیا سب ناشتہ کر چکے تھے اور سکندر شاہ اور ظفر شاہ بھی افس کے لیے نکل چکے تھے میرب بھی اریان شاہ کو اٹھتا دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی جو کہ اس کے اٹھنے کا ہی انتظار کر رہی تھی ٹیبل پر بیٹھا زوہان مزے سے ابھی بھی ناشتہ کرنے میں مصروف تھا اس دوران زیمل اور انائشہ زوہان کو غصے سے نواز رہی تھی کیونکہ وہ بھی اس کی وجہ سے کالج سے لیٹ ہو رہی تھی اتنے میں زوہان بھی ناشتہ کر چکا تھا اور تینوں سادیہ بیگم اور امنہ بیگم کو سلام کرتے ہیں اور ان سے دعائیں لیتے ہوئے کالج کو روانہ ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بی جان کی طبیعت اب ناساز رہتی تھی لیکن انہیں اپنی بیٹی کے پاس رہنے سے بہت تسکین ملتی تھی اس کی وجہ ان کی اپنی بیٹی کے ساتھ بے تحاشہ محبت تھی

سکندر شاہ اور ظفر شاہ کو بھی اپنی بہن کے ساتھ گہرا انس تھا اور وہ ہر شام ایک دفعہ اپنی بہن کے گھر ضرور ملنے جایا کرتے تھے مرتضی صاحب کی وفات کے بعد انہوں نے کبھی بھی اپنی بہن کو اکیلا نہ چھوڑا اور نہ ہی کسی چیز کی کمی محسوس ہونے دی ان کا ایک بیٹا، ماہیر شاہ، اور بیٹی، آئرہ شاہ، تھی، جو دونوں ہی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیاہ رنگ کی تھیم میں ڈوبا ایک نہایت ہی شاندار کمرہ، جہاں رکھی ہر چیز اس شخص کے نفیس ذوق کی گواہی دے رہی تھی، جسے اپنی انا بے حد عزیز تھی۔کمرے میں موجود خوبرو نوجوان تھری پیس لباس میں ملبوس تھا اور سگریٹ سلگاتے ہوئے گہرے کش لگا رہا تھا۔ یہ رشتوں کا طلبگار، اندر سے ٹوٹا ہوا لڑکا، جسے زندگی کی ٹھوکروں نے نہ صرف مضبوط بلکہ کامیاب بھی بنا دیا تھا، آج اپنی شاندار زندگی گزار رہا تھا۔دنیا میں اس کا اور کوئی نہ تھا، سوائے اس کے ایک دوست کے، جو اس کا سیکریٹری بھی تھا۔ اگر وہ کبھی اندر سے پریشاں تو اپنے تمام دکھ اپنے دوست سے بانٹ لیتا، ہاں یہ وہی زاویار بٹ تھا، جس کے خواب ہر لڑکی دیکھا کرتی تھی اور جس سے ملنے کی خواہش ہر کوئی رکھتا تھا۔ مگر وہ کبھی کسی کو اپنے قریب آنے نہ دیتا۔ وہ کسی پر بھی اپنی اندرونی حالت کو ظاہر نہ کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسد۔۔۔۔۔ اس فارم ہاؤس کی ڈیٹیلز نکلوائی ہیں

زاویار نے اسد سے پوچھا جو کہ اگلے لمحے ہی اس کے پاس موجود تھا۔۔ جی سائیں میری ان سے بات بھی ہو چکی ہے لیکن وہ اسے ایک فارم ہاؤس کا تین کروڑ مانگتے ہیں۔ چاہے چھ کروڑ ہی کیوں نہ مانگیں تم میری شخصیت سے اچھی طرح واقف ہو کہ اگر میں کوئی چیز لینے کی ٹھان لیتا ہوں تو اسے لے کے چھوڑتا ہوں انہیں ہر حال میں انہی ایک دو دنوں میں پیمنٹ دو اور اس کے پیپرز مجھے لا کے دو۔ زاو یار یہ کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل چکا تھا اور اسد بھی اس کے پیچھے ہی تھا " سائیں۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے زویار کے پیچھے چلتے ہوئے اسے اپنی طرف متوجہ کیا سائیں وہ فارم ہاؤس خان کے بیٹے کا ہے اور وہ یونی میں پڑتا ہے سو وہ ہمیں اس وقت یونی میں ہی ملے گا خان نے کہا تھا کہ وہ فارم ہاؤس اس کے بیٹے کا ہے اس لیے ایک دفعہ اس سے بات کرنی پڑے گی۔ ہمممممم۔۔۔۔ بات کرتے ہیں لیکن اگر نہ مانا تو تم اچھے سے جانتے ہو کہ مجھے وہ فارم ہاؤس ہر حال میں چاہیے ہے ۔جی سائیں اسد نے سر خم کرتے ہوئے اسے یقین دلایا کہ وہ فارم ہاؤس وہ لیں گے ۔۔۔۔ اور پھر اسد نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور زاویہ اور گاڑی میں بیٹھا اور خود گاڑی کو ڈرائیو کرتے ہوئے وہ یونی کی طرف روانہ ہوئے

⁦۔ (⁠★(⁠★(⁠★(⁠★(⁠★(⁠★(⁠★(⁠★

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوپہر کا سورج سر پر تھا اور وہ جلدی سے اپنے ڈیپارٹمنٹ سے چلتی ہوئی مین گیٹ کی طرف جا رہی تھی جہاں پر ماہیر کب سے اس کا انتظار کر رہا تھا اور اس قدر جلدی میں تھی کہ سامنے دیکھے بغیر چل رہی تھی اور اسی دوران وہ کسی وجود سے ٹکرائی اور اس کی ساری کتابیں زمین پر گر گئیں۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کسی پتھر سے ٹکرا کر چکرا گئی ہو، لیکن سامنے والے وجود کو دیکھے بغیر ہی جیسے ہی وہ اپنی کتابیں اٹھانے کے لیے جھکی…

پتہ نہیں لوگ کیسے اندھوں کی طرح چلتے ہیں! خدا نے دو آنکھیں دی ہیں، مگر ان کا استعمال نہیں کرتے۔ میری ساری کتابیں گرا کر رکھ دی ہیں، منحوس کہیں کے! وہ یہ کہتے ہوئے اپنی کتابیں زمین سے اٹھا رہی تھی جیسے ہی اوپر کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔

اس کے سامنے ایک بہت ہی خوبرو اور نوجوان مرد کھڑا تھا جو کب اس کی باتیں سن رہا تھا اور بہت ہی حیرانگی سے اسے دیکھ رہا تھا اسد نے ائرہ کو کچھ کہنا چاہا مگر زاویار نے ہاتھ کے اشارے سے اسے وہیں روک دیا اور کیا دیکھ رہے ہو کبھی پہلے کوئی لڑکی نہیں دیکھی میری ساری کی ساری کتابیں خراب کر رکھ دی اور پھر سوری بھی نہیں بول رہے ہٹو اب ۔۔ ائراہ اسے بہت کچھ سناتی ہوئی اس کی سنے بغیر ہی اگے چلی گئی جہاں پر اس کا بھائی اس کا کب سے انتظار کر رہا تھا ۔۔۔۔۔

"آئرہ! کہاں رہ گئی تھی؟ میں کب سے تمہارا انتظار کر رہا تھا،" ماہیر نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔

"اچھا، اب آ گئی ہوں نا! آپ چلو بھی۔" "سائیں، آپ نے مجھے کچھ کہنے کیوں نہیں دیا؟ وہ لڑکی آپ سے کتنی بدتمیزی کر رہی تھی!" اسد نے زاویار سے کہا۔

زاویار نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا، "مجھے اس لڑکی کی ساری تفصیلات چاہییں۔"

وہ لڑکا، جو آج تک کسی بھی لڑکی کو خاطر میں نہیں لایا تھا، آج اس کے دل میں ایک عجیب سا خلش پیدا ہوئی۔ وہ اسے یوں محسوس ہو رہی تھی جیسے آسمان سے اتری کوئی پری ہو۔

کالے لباس میں ملبوس، دودھ جیسی سفید رنگت لیے، جس پر سورج کی روشنی پڑنے سے ہلکی سی سرخی جھلک رہی تھی۔ اور اس کے چہرے پر موجود ایک تل اسے مزید دلکش بنا رہا تھا۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔★۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"زوہان! نہ تم ہمیں وقت پر کالج پہنچاتے ہو اور نہ ہی وقت پر گھر لے جاتے ہو۔ میرب اپی بھی کب سے ہمارا انتظار کر رہی ہوں گی، اور اوپر سے تم نے یہ گرمی دیکھی ہے؟

آج ہی جا کر بابا سے تمہاری شکایت کروں گی!" زمل نے غصے میں لال ہوتے ہوئے زوہان کو مخاطب کیا۔۔۔۔۔۔ انائشہ بھی زوہان پر غصے کی گھوری ڈال رہی تھی۔۔۔۔۔

"اب تم کیوں چپ ہو؟ تم بھی کچھ کہہ لو، اس نے سنائی ہے تو سن لی ہے تمہاری بھی سن لوں گا!" زوہان نے آنائشا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

پھر دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا، "ایک تو تم لوگوں کے نخرے ختم ہی نہیں ہوتے! تمہیں وقت پر پہنچاتا ہوں، وقت پر لے کر آتا ہوں، اور پھر بھی تم لوگوں کا غصہ کم نہیں ہوتا!"

"ویسے زوہان! تمہیں بھی مجھ سے کوئی خاص قسم کا مسئلہ ہے؟

اور ہمیں بھی کسی پر فضول غصہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ تم یہ سب کر رہے ہو اس وجہ سے کہہ رہے تھے؟" آنائشہ نے زوہان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، جبکہ اس کی آخری بات کا اشارہ ان دونوں کیطرف سے تھا۔

ہممممم۔زوہان تنزیہ لہجے میں کہتے ہوئے گاڑی کی طرف متوجہ ہوا اور پھر میرب کو یونیورسٹی سے لیتے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔

"صبح، سمرہ آپا کا فون آیا تھا، بتا رہی تھیں کہ بی جان کی طبیعت پھر سے خراب ہے،" آمنہ بیگم نے سادیہ بیگم کو بتایا، جو لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی پر چلنے والے پروگرام کی طرف متوجہ تھیں۔۔۔۔

"ہمممم... کل ظفر بھی کہہ رہے تھے کہ ہم بی جان کو یہیں لے آتے ہیں۔ سمرہ آپا اکیلی انہیں کیسے سنبھالتی ہوں گی؟" سادیہ نے بھی امنہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے جواب دیا ۔۔۔۔۔

Hello my mom and my cute Aunt !!!!

اتنے میں زوہان نے گھر داخل ہوتے ہوئے اپنی موجودگی کا احساس دلوایا ۔۔۔۔۔۔۔۔

"زوہان، میں نے تمہیں کتنی دفعہ کہا ہے کہ جب آؤ تو اسلام علیکم کیا کرو، تم کب صدھرو گے؟" آمنہ بیگم نے پیار سے اس کے سر پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا۔

Hey my lovely mom please chil .... !!

اپ بھی نا کیا چھوٹی چھوٹی باتوں کو پکڑ کر بیٹھ جاتی ہیں

زیمل انائشہ اور میرب بھی سب کو سلام کرتی لاؤنج میں ہی بیٹھ چکی تھی زیمل زوہان کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹی وی کا ریموٹ اٹھانے لگی اسی دوران زوہان جو کہ اس سے پہلے اٹھا چکا تھا ایک دفعہ پھر ان کی نہ ختم ہونے والی بحث شروع ہو چکی تھی انہیں دیکھ کر وہاں پر موجود تمام لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ ائی ۔۔۔۔

اچھا اب تم لوگ اٹھو اور چینج کرو امنہ بیگم نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔★۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔★۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مما میں کون سے کپڑے پہنوں مجھے کچھ تو بتائیں نا میں بہت زیادہ کنفیوز ہوں ۔۔۔۔۔۔ ؟؟ ائرہ نے منہ لٹکاتے ہوئے پوچھا!!

آئرا! یہ تو بس ایک چھوٹی سی دعوت ہے، اور وہ بھی تم نے اپنی دوست کے گھر جانا ہے، کسی انٹرویو کی سلیکشن کے لیے نہیں جانا، اور تم نے پورے گھر کو سر پر اٹھا رکھا ہے! اتنے سارے کپڑے ہیں، کوئی بھی پہن لو!

سمرا اپا نے ڈانٹتے ہوئے ائرہ کو کہا جو کہ سارے کپڑے الماری سے باہر نکال کر کمرے کا حال برا بنا کر بیٹھی تھی۔۔۔۔۔

اتنے میں دروازے پر گھنٹی بجی تو سمرا اپا دروازہ کھولنے کے لیے گئی اور سامنے زیمل کو پایا، جو کچھ کتابیں ہاتھ میں لیے کھڑی تھی۔ ۔۔۔

السلام علیکم پھوپھو!!! کیا حال ہے ٹھیک ہیں

جی میرے بچے کیا حال ہے ٹھیک ہیں گھر میں سب کیسے تھے اؤ نا اندر اؤ چلو۔۔۔۔ سمرہ اپا نے بہت ہی خوش دلی سے زیمل کے استقبال کیا اور اسے اندر انے کو کہا۔۔۔۔۔۔

"پھپھو، دیکھیں نا! مجھے گھر میں کوئی بھی میتھ نہیں پڑھاتا، سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ تو پھر میں اپنی کتابیں اُٹھا کر یہاں آگئی، کیونکہ کل میرا ٹیسٹ ہے اور مجھے میتھ بالکل نہیں آتا۔ میں نے سوچا کہ میں جاؤں، اور ائرہ اپی سے سمجھ کے آتی ہوں۔ بس پھپھو، بتائیں نا! میرے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے، ہے نا؟ ایسے تو کوئی بھلا کسی کے ساتھ نہیں کرتا!" زمل نے معصومانہ سا منہ بناتے ہوئے کہا اس وقت کو سمرا اپا کو بالکل ایک چھوٹی سی بچی لگ رہی تھی زیمل بھی شروع سے ہی اپنی پھپھو سے بہت زیادہ فرینک تھی اور پھپھو بھی زیمل کو اپنی بیٹی مانتی ہیں اس لیے وہ کچھ بات بھی پھپھو سے اسانی سے شیئر کر لیتی تھی۔۔۔۔۔۔

ہمممم۔۔۔۔ یہ تو ہے """ان کی تو عقل ٹھکانے لگا دوں گی! ایسا کیوں کرتے ہے میرے بچے کے ساتھ؟ میں آتی ہوں نا شام کو، میں ان کے کان کھینچوں گی! لیکن اب میرا بچہ آرام سے یہاں بیٹھ کر سمجھ لے گا، ٹھیک ہے نا؟" جی پھوپھو!

زمل نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔۔۔

"اچھا پھپھو، اب مجھے جلدی سے بتائیں کہ آئرا آپی کہاں ہے؟"

"بیٹا، آئرا اپنے کمرے میں ہے۔ جب سے یونی سے آئی ہے، سارا کمرہ گندا کر کے بیٹھی ہوئی ہے، ہر چیز پھیلا رکھی ہے۔ اسے اپنی دوست کے گھر دعوت پر جانا ہے، مگر وہ یہی فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ کون سے کپڑے پہننے ہیں۔ تم جا کر اس کی مدد کرو۔"

"اچھا پھپھو، میں جاتی ہوں!"

"آئرا آپی، کیا کر رہی ہیں آپ؟ واللہ! یہ کیا حال بنا رکھا ہے کمرے کا!"

"زیمل! تم کب آئی؟ آؤ نا، اندر آؤ، بیٹھو!"

"آپی، خیریت ہے؟ آپ نے سارے کپڑے پورے کمرے میں پھیلا رکھے ہیں!"

"زیمل یار، میں تمہیں کیا بتاؤں! مجھے نائلہ کے ہاں جانا ہے، لیکن میں یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ کون سے کپڑے پہنوں!"

"آئرا آپی، آپ پریشان نہ ہوں، اب میں آگئی ہوں نا! اب میں آپ کو اچھے سے تیار کروں گی اور بتاؤں گی کہ آپ نے کون سے کپڑے پہننے ہیں، ٹھیک ہے؟"

ہمممم۔ اب تو میری ٹینشن غائب ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ائرہ نے مسکراتے ہوئے زیمل سے کہا کیونکہ سب کو ہی پتہ تھا کہ زمل کی ڈریس سلیکشن بہت اچھی ہے۔۔۔۔۔۔۔

نائلہ ائرہ کے بہت اچھے دوست تھی اور اج اس کے گھر ایک چھوٹی سی دعوت تھی جس کے ہاں ائرہ نے جانا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"آئرا آپی، آپ یہ ڈریس پہنیں، یہ بہت خوبصورت ہے!"

زیمل نے ایک ڈریس منتخب کیا جو کالے رنگ میں تھا۔ یہ ایک شارٹ فراک تھی، جس کے نیچے کھلا فلیپر تھا۔ اس فراک پر چھوٹے چھوٹے موتیوں کی نہایت خوبصورت کڑھائی ہوئی تھی، اور اس کے اوپر ایک بہت ہی پیارا ریشمی سا دوپٹہ تھا۔ وہ سوٹ واقعی آئرا آپی پر بہت اچھا لگ رہا تھا۔

زیمل باتوں باتوں میں یہ تو بھول ہی گئی تھی کہ وہ یہاں کس مقصد کے لیے آئی ہے۔ اچانک جب اسے یاد آیا کہ وہ تو یہاں میتھ کے سوال سمجھنے آئی تھی، تو گھبرا کر بولی، "ائرہ! آپ تو دعوت پر جا رہی ہیں، مگر میں تو یہاں آپ کے پاس میتھ پڑھنے آئی تھی۔ اب میں کیا کروں؟ میرا تو کل ٹیسٹ بھی ہے اور گھر میں کوئی فارغ نہیں جو مجھے پڑھا سکے۔"

ائرہ نے تحمل سے جواب دیا، "کوئی بات نہیں، اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟ ماہیر بھائی ہیں نا، وہ تمہیں سمجھا دیں گے۔ تم ان کے ساتھ بیٹھ کر سمجھ لو، اور ویسے بھی، میں تھوڑی دیر کے لیے جا رہی ہوں، پھر واپس آ جاؤں گی۔ اگر تمہیں ان سے کچھ سمجھ نہ آئے، تو میں خود سمجھا دوں گی۔ ٹھیک ہے نا؟ تم پریشان مت ہو۔" ۔۔۔۔۔۔

"اچھا ماما، میں جا رہی ہوں۔ ماہیر بھائی گھر پر ہی ہیں نا؟ میں نائلہ کے ہاں جا رہی ہوں، اس لیے میں زیمل کو میتھ سمجھا نہیں پاؤں گی۔ میں نے زمل سے کہہ دیا ہے کہ وہ ماہیر بھائی سے ہی سمجھ لے۔"

اتنے میں ائرہ کو کال ائ، "نائلہ نے ڈرائیور کو بھیج دیا ہے، وہ گھر کے باہر کھڑا ہے۔"

یہ کہہ کر ائرہ سلام کرتی ہوئی باہر چلی گئی۔

سمرا اپا نے زیمل سے کہا، "جاؤ بیٹا، ماہیر اپنے کمرے میں ہے، جا کر اس سے میتھ سمجھ لو۔"

زیمل بہت ہی الجھن میں تھی کیونکہ اس نے آج تک ماہیر سے کچھ بھی نہیں پڑھا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ قدم رکھتی ہوئی اس کے کمرے کے دروازے تک پہنچی اور ایک بار اندر جھانک کر دیکھا۔ ماہر لیپ ٹاپ پر کچھ کام کر رہا تھا۔

اس نے دروازہ آہستہ سے کھٹکھٹایا، لیکن چونکہ ماہر اپنے کام میں مصروف تھا، اس نے دھیان نہیں دیا یا شاید اسے پتہ نہ چلا۔ زیمل نے دوبارہ دروازہ کھٹکھٹایا اور پھر اندر چلی گئی۔ ماہیر نے اس کی طرف دیکھا۔

"السلام علیکم... وہ... میں... ائرہ آپی سے سمجھ نہیں پائی تھی، کیونکہ وہ دعوت پر چلی گئی ہیں، تو انہوں نے کہا کہ آپ سے سمجھ لوں۔ یہ میرا کل ٹیسٹ ہے۔" اس نے بمشکل اپنی بات مکمل کی۔

"ہاں ہاں، کیوں نہیں! میں سمجھا دوں گا۔ ادھر آؤ، بیٹھو۔" ماہیر نے نرمی سے کہا۔ "گھر میں سب کیسے ہیں؟ زوہان اور اریان بھائی ٹھیک ہیں نا؟"

زیمل نے محض "جی" کہہ کر سب سوالوں کا جواب دے دیا۔

"ادھر آ جاؤ، ادھر بیٹھو۔" ماہر نے صوفے پر رکھا اپنا کچھ پڑھائی کا سامان سائیڈ پر کرتے ہوئے زیمل کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

"ادھر کتاب دو، کتنے چیپٹر ہیں؟"

"یہ پانچ چیپٹر ہیں۔" زیمل نے جواب دیا۔

"سارے سمجھنے ہیں یا صرف کچھ ایکسرسائزز؟"

زیمل نے وہ سوال مارک کیے جو اسے بالکل بھی نہیں آتے تھے۔

"اچھا، ادھر دیکھو۔ سب سے پہلے ہم سائن چینج کریں گے۔" ماہر اسے سمجھانے لگا۔

ماہر کو زیمل ہمیشہ سے ہی بہت اچھی لگتی تھی، لیکن وہ اکثر اسے اپنا وہم قرار دے دیتا تھا۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ جب بھی وہ اسے اپنے سامنے دیکھتا، اسے ایک عجیب سا سکون محسوس ہوتا۔ آج تو وہ اس کے پاس ہی بیٹھی تھی...

وہ صرف اسے اچھی نہیں لگتی تھی بلکہ حقیقت میں وہ بہت پیاری تھی، بالکل سفید سی، ننھی سی گڑیا، جو ابھی بھی اپنا بچپن ساتھ لیے گھوم رہی تھی۔

زیمل بہت سنجیدگی سے سوال سمجھ رہی تھی اور ساتھ ہی الجھن میں بھی تھی، کیونکہ وہ اپنی پڑھائی میں کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتی تھی۔

اچھا اب یہ ایک سوال تو میں نے تمہیں سمجھا دیا ہے اگلا سوال تم خود کرو اور جہاں کہیں سے بھی سمجھ نہ ائے تو مجھ سے بے جھجک پوچھ لینا۔۔۔۔۔۔

زیمل نے جی میں جواب دیا اور سوال کرنا شروع کر دیے۔۔۔۔۔

وہ زیمل کے معصومانہ چہرے کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا اور اج بھی وہ اپنے دل میں ہونے والی ہلچل کو ہمیشہ کی طرح نہ سمجھ پایا۔۔۔۔۔۔۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔★۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔★۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"میرب بیٹا، یہ چائے اریان کو دے آؤ، آج وہ دفتر سے جلدی آگیا ہے کیونکہ اس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔ مجھے کچن میں کچھ کام ہے، وہ اپنے کمرے میں ہے، جاؤ اور یہ چائے اسے دے آؤ۔" امنہ بیگم نے محبت بھرے انداز میں میرب سے کہا۔

"جی بڑی امی، میں ابھی دے کر آتی ہوں۔" میرب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور چائے کا کپ تھام کر اریان کے کمرے کی طرف چل دی۔

کمرے کے دروازے پر پہنچ کر اس نے آہستہ سے دستک دی۔ اندر اریان بیڈ پر نیم دراز تھا، اس کی ایک بازو پیشانی پر تھی اور آنکھیں بند تھیں۔ دستک کی آواز سن کر اس نے بغیر دیکھے ہی اندر آنے کی اجازت دے دی۔

"یہ بڑی امی نے آپ کے لیے چائے بھیجی ہے۔" میرب نے نرمی سے کہا۔

اریان نے اس کی آواز سنتے ہی آنکھیں کھولیں اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اس نے چائے کا کپ لے کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور مدھم لہجے میں بولا، "میرب، دراز میں ایک پین کلر رکھی ہوگی، پلیز نکال کر دے دو، سر میں شدید درد ہو رہا ہے۔"

میرب نے فوراً دراز کھولی، دوا نکال کر اریان کی ہتھیلی پر رکھی اور ہمدردی سے اسے دیکھنے لگی۔

میرا اور اریان کا رشتہ بچپن ہی سے طے شدہ تھا، جو کہ ان کے دادا نے مقرر کیا تھا۔ مگر اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے، ان کا انتقال آج سے دو سال قبل ہو چکا تھا۔ تاہم، اس رشتے پر سبھی راضی تھے اور ہر کوئی ان دونوں کی جوڑی کو بے حد پسند کرتا تھا۔

میرب بھی اریان کی طرح نہایت سنجیدہ اور سمجھدار لڑکی تھی، جو ہر کام میں مہارت رکھتی تھی۔ اس کی تعلیم بھی مکمل ہونے کے قریب تھی، اور اریان بھی اپنی شریکِ حیات کے طور پر کسی ایسی ہی لڑکی کا متمنی تھا۔ میرب میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو اریان اپنی بیوی میں دیکھنا چاہتا تھا۔

دونوں ایک دوسرے کو دل ہی دل میں پسند کرتے تھے، مگر چونکہ دونوں ہی سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے، اس لیے کسی نے بھی اپنے جذبات کا اظہار نہ کیا۔ تاہم، انہیں اس بات کا سکون تھا کہ وہ ایک دوسرے کے لیے ہی مقدر ہیں، کیونکہ ان کا رشتہ پہلے ہی پختہ ہو چکا تھا۔

اریان نے چائے کے ساتھ ہی گولی لی اور تقریباً آدھی چائے پی، باقی چھوڑ دی۔

"اچھا، جب جانے لگو تو لائٹ بند کرتے جانا، مجھے کچھ دیر آرام کرنا ہے۔"

"جی ٹھیک ہے،" میرب نے سنجیدگی سے جواب دیا اور باہر نکل گئی، لائٹ بند کرتی ہوئی۔

...

زیمل اور انائشہ ایک ہی کمرے میں رہتی تھیں۔ اس وقت انائشہ اپنے کمرے میں بیٹھی پڑھائی کر رہی تھی کہ اچانک زوہان بغیر اجازت اندر داخل ہوا اور کچھ تلاش کرنے لگا۔

"زوہان! یار، کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ؟ تم اب اجازت لے کر اندر نہیں آ سکتے؟" انائشہ نے جھنجھلا کر کہا۔

زوہان بے پروائی سے کندھے اچکاتے ہوئے بولا، "کیوں؟ یہ میری بہن کا کمرہ ہے، اور میں اجازت لینا ضروری نہیں سمجھتا۔"

انائشہ نے فوراً ترکی بہ ترکی جواب دیا، "یہ صرف تمہاری بہن کا کمرہ نہیں ہے، یہ میرا بھی کمرہ ہے! شاید تم بھول رہے ہو۔"

زوہان نے شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا، "تم بھی تو میری ہی ہو!"

یہ سن کر انائشہ کو مزید غصہ آیا۔ وہ کرسی سے اٹھتے ہوئے بولی، "ٹھہرو، ابھی جا کر بڑی امی کو بتاتی ہوں!"

زوہان نے فوراً ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا، "اوئے، رکو رکو رکو! یار، تم تو ہر بات کو سیریس لے لیتی ہو۔ کزن تو تم میری ہو نا؟"

انائشہ نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "ہاں جی، غلطی سے تمہاری کزن ہوں، ورنہ میں تو تمہاری کزن بھی نہ بننا چاہوں۔"

زوہان نے خود پر ناز کرتے ہوئے کہا، "او ہیلو! میرے اوپر لڑکیاں مرتی ہیں۔ تم جیسی لڑکیاں تو میری ایک جھلک پانے کو ترستی ہیں، اور تم ہو کہ مجھے قابلِ توجہ ہی نہیں سمجھتیں؟"

انائشہ نے بے نیازی سے جواب دیا، "نہیں، مجھے ایسے ہینڈسم لڑکے بالکل بھی پسند نہیں۔ تم نے جو لینا تھا، لے چکے ہو نا؟ اب جاؤ اور مجھے پڑھنے دو۔"

زوہان نے معنی خیز لہجے میں کہا، "جتنے نخرے دکھا رہی ہو نا، خیال رکھنا کہیں تم میری ضد نہ بن جاؤ۔"

انائشہ نے مسکرا کر جواب دیا، "میں تو ایسی ہی ہوں اور نخرے دکھاتی رہوں گی۔ اور ہاں، ایک بات یاد رکھنا، اگر تم مجھے ایک دفعہ نہیں، دس دفعہ بھی اپنی ضد بنا لو، تب بھی میں تمہیں نہیں ملوں گی!"

زوہان نے معنی خیز نظروں سے انائشہ کی طرف دیکھا اور پرُاعتماد لہجے میں بولا، "اچھا، تو یہ بات ہے؟ اب دیکھنا، آج کے بعد تم زوہان شاہ کی ضد بن چکی ہو۔ اور میں تمہیں ہر حال میں حاصل کر کے رہوں گا، چاہے وہ ضد سے ہو یا محبت سے!"

یہ کہہ کر زوہان کمرے سے باہر نکل گیا، لیکن انائشہ نے اس کی بات کو زیادہ سنجیدہ نہ لیا اور دوبارہ اپنی کتابوں میں مگن ہو گئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔★۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔★۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

نائلہ کے پاپا ایک بزنس مین تھے، اور یہ ان کے بزنس میں پروموشن کی ایک چھوٹی سی دعوت تھی، جس میں انہوں نے زاویار بٹ کو بھی مدعو کیا تھا۔ زاویار بٹ اور نائلہ کے پاپا کے آپس میں بہت اچھے تعلقات تھے۔

نائلہ اپنی دوست ائرہ کو سب مہمانوں سے ملوارہی تھی کہ اچانک کسی نے اسے پکارا۔ اس نے ائرہ سے کہا، "تم یہاں ٹھہرو، میں ابھی آتی ہوں۔"

یہ کہہ کر وہ کھانے کی میز کی طرف بڑھنے لگی، لیکن جیسے ہی اس نے چند قدم چلنے کی کوشش کی، اس کی ہیل ٹیڑھی ہو گئی، اور وہ گرنے لگی۔ اسی لمحے کسی نے تیزی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گرنے سے بچا لیا۔

نائلہ نے خود کو سنبھالتے ہوئے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا اور ناک چڑھاتے ہوئے "تھینک یو" کہا، پھر منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگی، "آج کا تو دن ہی خراب ہے!"

سامنے کھڑا شخص کوئی اور نہیں بلکہ زاویار بٹ تھا۔ زاویار نے اس کی بد مزاجی کو انجوائے کرتے ہوئے مسکرا کر کہا، "لگتا ہے تم ہر وقت گرتی ہی رہتی ہو! ویسے شکر کرو میں نے تمہیں پکڑ لیا، ورنہ سب کے سامنے تمہاری انسلٹ ہو جاتی!"

ائر ابھی کہاں پیچھے ہٹنے والی تھی۔ اس نے تیکھے انداز میں کہا، "اب اتنا بھی احسان جتانے کی ضرورت نہیں ہے! صبح میری کتابیں تمہاری وجہ سے گری تھیں اور خراب ہو گئی تھیں، تم نے مجھے بچا کر کوئی احسان نہیں کیا تھا!