Chereads / Dil e momin / Chapter 1 - باب: 1

Dil e momin

sawera_shehbaz
  • --
    chs / week
  • --
    NOT RATINGS
  • 2.1k
    Views
Synopsis

Chapter 1 - باب: 1

Pg(1)

صبح فجر کا وقت تھا آذان کی آواز نے اسکو جگا دیا اور وہ نماز پڑھ کر اپنی جگہ پڑ ہی بیٹھی رہی۔۔۔۔۔

زندگی کی راہوں میں

جب بھی مشکلیں آئیں

میں نے مہربان رب کو

اپنے پاس پایا ہے ۔۔۔۔

راستے کی دشواری

ختم ہوئی ساری ۔۔

جب اسے سدا دی ہے

بگڑی بات اک"کن"سے

بنا دی ہے ۔۔۔۔۔

وہ اپنے بستر میں ہلکی ہلکی نیند میں تھی لیکن آئزہ کی آواز اسکی نیند میں خلل ڈال رہی تھی ۔ اسنے اس آواز کو اگنور کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

جب بھی ناتواں دل کو ۔

الجھنوں نے گھیرا ہے

وہ جہاں کے خالق کو

یاد کر لیا میں نے۔۔

چھٹ گئی پریشانی

دل کو پھر سکون آیا

چین کی گھڑی آئی

PG(2)

سر گرا کے میں "سجدے"میں

"شکر" میں بجا لائی۔۔۔

اس نے جھٹ سے بستر اتارا اور آئزہ پر برسنے لگی ۔

تمہیں اتنی بھی عقل نہیں ہے کہ میں پاس لیٹی سو رہی ہوں تم اپنی غزلیں شعروشاعری کہی اور بیٹھ کر کر لیتی-

دو منٹ سکوں سے سونا بھی مشکل کر دیا ہے ۔اس نے اپنے منہ کے ذاویعے بدلتے ہوئے کہا ۔۔۔

یہ غزل یاں شعروشاعری نہیں ہے سائرہ یہ "حمد" ہے اللہ کی تعریف-

میں تو بس اسکا شکر ادا کر رہی تھی ان سب نعمتوں پر جو اس نے مجھے دے رکھی ہیں۔

اس نے معصومیت سے بولا۔۔

اچھا جو بھی کر رہی تھی اپنے کمرے میں کیا کرو کم از کم میری نیند تو خراب نہ کیا کرو ۔

اور وہ یہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی۔

آئزہ وہی کھڑی اسے باہر جاتا دیکھتی رہی اسے سائرہ کی باتوں پر غصہ نہیں آیا تھا

اسے اتنی چھوٹی باتوں پڑ غصہ آتا ہی کب تھا وہ بس سائرہ کے لیے ایک ہی دعا کرتی تھی-

اللہ اسے جلد "ہدایت " دے۔۔۔

                      "_____________________"

Pg(3)

" ارمان"

"ارمان" اٹھو ارمان فجر کا وقت ختم ہونے کو ہے -

تم نے نماز نہیں پڑھنی کیا جو تم ابھی بھی اس طرح بستر میں لیٹے سو رہے ہو ۔

اس نے ارمان کا بستر اس سے اتارتے ہوئے کہا ۔۔۔

اچھا نہ بھائی اٹھ جاتا ہوں اتنی بھی کیا جلدی ہے ۔

ابھی بہت وقت ہے ۔ارمان نے بستر پھر منہ پر لیتے ہوئے کہا ۔۔

اس نے پھر سے ارمان سے بستر اتارا اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر اٹھا دیا۔۔

کیا ہے "رحمان" بھائی سونے تو دیں-

سارا دن بھی نہیں سوتا ایک رات ہی تو ہوتی ہے ۔۔

رحمان نے اسکی طرف پیار سے دیکھا

اور بولا "میرے بھائی نماز تو بیماری کی حالت میں بھی چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے تم تو بس تھکے ہوئے ہو ۔

Pg(4)

صحابہ اکرام اپنی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے نماز پڑھا کرتے تھے ۔

اور تم تھکاوٹ کی وجہ سے ہی نماز سے بھاگ رہے ہو ۔۔۔

ارمان اس کی باتیں سن تو رہا تھا لیکن صرف سن ہی رہا تھا۔۔

آپکا لیکچر مکمل ہو گیا ہو تو میں وضو کر لوں ۔اور وہ وضو کرنے کے لیے آگے بڑھا ۔۔

میں نہیں چاہتا کہ نیک اعمال کر کے میں اکیلا ہی جنت میں چلا جاؤں بھئ۔۔۔۔

اپنے بھائی کو بھی ساتھ لے کر جاؤں گا اکیلا وہاں بور ہو جاؤں گا ۔

۔اسکے جاتے ہی رحمان پیچھے سے بولا۔۔۔۔۔

ارمان نے پلٹ کر اسکی طرف دیکھا اور مسکرا دیا ۔۔۔

رحمان کے لبوں پر بھی مسکراہٹ آئی وہ جانتا تھا کہ ارمان صرف سستی کرتا دل اسکا مومن ہی ہے

۔اگر وہ دنیا میں پھنس کر رہ جائے گا تو اسکا بھائی اسے ضرور آخرت کی طرف لے کر آئے گا ۔ ارمان نے جیسے خود سے ہی بات کی ہو"

                         "_________________"

Pg(5)

" آئزہ "

" سائرہ " بیٹا چلو آجاؤ نیچے آکر ناشتا کرو تمہارے ابا ناشتے کے لیے تم دونوں کا انتظار کر رہے ہیں

"عائشہ" نے برتن ڈائنگ ٹیبل پر رکتھے ہوئے اپنی دونوں بیٹیوں کو آواز دی ۔۔

آگئی ہوں اماں آپ کیوں اتنا اونچا بول بول کر اپنا گلا پھاڑ لیتی ہیں۔

سائرہ نے کرسی اپنی طرف گھسیٹ کر اس پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔

اس کا باپ جو اسی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔

وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی ایک چھوٹی سی بچی لگ رہی تھی۔

" وہ ہی معصومیت بھڑی نیلی آنکھیں گول سا

چہرہ بالوں کو پونی ٹیل میں باندھے ہوئے جب وہ

گردن موڑتی تو اسکے بال ہوا میں جھولتے" وہ گھر میں سب کی لاڈلی تھی" ۔

آئزہ کدھر ہے سائرہ۔ عائشہ نے پلیٹ رکھتے ہوئے سائرہ سے پوچھا۔

Pg(6)

ادھر ہی ہوگی اماں آپ مجھے تو کھانا دیں ۔

نہیں ہم اکٹھے کھانا کھائیں گے آئزہ کو آنے دو ۔سائرہ منہ میں کچھ بڑبڑانے لگی۔

اسلام علیکم! اماں اباں کیسے ہیں آپ سب سوری میں نہا رہی تھی اباں ۔

جس وجہ سے لیٹ ہو گئی

آئزہ معذرت کرتے ہوئے کرسی پر بیٹھی.

معذرت کرنے سے کیا ہو گا ہمیں بھوک لگی ہے جلدی بیٹھو ۔ سائرہ نے اکھڑے انداز میں کہا ۔

سب کھانا کھانے لگے۔

اور سائرہ کی نظر اچانک صدیق پر پڑی ۔ کس سوچ میں ڈوبے ہیں ۔

"محمد صدیق بن علی" صاحب دی گریٹ بزنس مین " ۔

سائرہ نے مزاحیہ انداز میں کہا ۔

Pg(7)

کچھ نہیں میں تم دونوں کی شادی کا سوچ رہا ہوں-

کہ تم دونوں کی شادی ہو جائے گی تو گھر خالی ہو جائے گا۔

صدیق علی سنجیدہ ہو کر بولے۔

اوہو ابا جان ہم آپکو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے-

میں تو شادی نہیں کر رہی۔

ہاں آئزہ کی کر دیں ویسے بھی وہ بہت سمجھدار ہیں گھر سنبھالنا آتا ہے اسکو -

میں تو ابھی بچی ہوں 30 35 سال کی نہیں

ہو جاؤں گی جب تک شادی نہیں کرنے والی.

آپکا پیچھا نہیں چھوڑوں گی۔

سائرہ نے صدیق کو گلے لگاتے ہوئے کہا ۔۔

سب ہنسنے لگے وہ۔سب کی لاڈلی تھی۔

Pg(8)

چلو سائرہ کالج کے لیے لیٹ ہو رہے ہیں۔آئزہ نے سائرہ کو پکڑ کر کہا ۔

او نو ۔۔۔آج تو مجھے اسائنمنٹ جمع کروانی تھی یار میں لیٹ ہو جاؤں گی

"آئمہ میم" پھر سے ڈانٹیں گی اور میں انکی ڈانٹ نہیں سننا چاہتی ۔

اوففففف چلو آئزہ جلدی چلیں وہ ہڑبڑاتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔

وہ دونوں کالج کے لیے گھر سے نکل پڑیں۔

سائرہ کلاس میں پہنچی اسکی دوست جو وہی بیٹھی اسکا انتظار کر رہی تھی-

سائرہ کو دیکھ کر وہ جھٹ سے اٹھی۔

کہاں رہ گئی تھی تم یار میں کب سے تمارا انتظار کر رہی تھی مجھے تو یہ تھا تم آو گی ہی نہیں۔

اریبہ نے جیسے حیرت سے اسے کہا ۔

نہیں یار میں نے کیوں نہیں تھا آنا بھئ آئمہ میم کی اسائنمنٹ تھی چھٹی کرکے ہفتہ پورا انکے لاپرواہی پر لیکچر نہیں سننا چاہتی میں۔

Pg(9)

سائرہ اپنی اسائنمنٹ دے کر باہر آگئی۔اسکو آئمہ میم بلکل پسند نہیں تھی۔

اریبہ بھی اسکے پیچھے ہی آگئی ۔ سائرہ سائرہ تم

کلاس چھوڑ کر کیوں آگئی۔

بس ایسے ہی سائرہ نے اپنا بیگ کینٹین کے باہر رکھتے ہوئے کہا ۔۔

مجھے پتا ہے تم میم آئمہ کو پسند نہیں کرتی۔کیونکہ وہ اسلام پر باتیں کرتی ہیں اس وجہ سے-

اریبہ نے اسکے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

نہیں یار ایسی بات نہیں ہے تم غلط سوچ رہی ہو

ایویں اپنے چھوٹے سے دماغ پر اتنا بوجھ نہ ڈالا کرو ۔ پہلے سے ہی بہت کم ہے ۔

یہ کہہ کر سائرہ نے زور سے قہقہہ لگایا اور کینٹین میں چلی گئ۔

اریبہ وہی کھڑی اسے جاتا دیکھتی رہی وہ جانتی تھی کہ سائرہ اسی وجہ سے کلاس چھوڑ کر آ جاتی ہے بس وہ مانتی نہیں تھی۔

پر پتا نہیں کیوں جیسے اریبہ نے خود سے ہی سوال کیا ہو ۔

اریبہ بھی سائرہ کے پیچھے کینٹین چلی گئ۔

          "______________"

Pg(10)

ارمان چلو میرے بھائی بابا ناشتے میں ہمارا انتظار

کر رہے ہونگے۔۔

ان کے پاس اتنا ٹائم ہوتا ہی کب ہے کہ۔وہ ہمارا

انتظار کریں بھائی۔ارمان نے منہ بگاڑ کر کہا ۔

ایسے نہیں کہتے ارمان وہ ہمارے باپ ہیں ہمارے

لیے ہی تو سب کر رہے ہیں۔

اگر وہ محنت نہ کرتے تو آج ہم اس گھر میں آسائشوں کی زندگی نہ گزار رہے ہوتے۔

رحمان نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔

ہاں بھائی آپ ہمیشہ دوسروں کی سائڈ لیتے ہو آپ

مجھ سے پیار نہیں کرتے نہ اس لیے ایسے کرتے

ہیں۔ ارمان نے اتنے معصوم انداز سے کہا

کہ رحمان کو اس پر پیار آیا ۔۔۔۔

ارے میرے بھائی میں تم سے زیادہ پیار کرتا ہوں اسی لیے تو تمہاری اصلاح کرتا ہوں۔

یہ کہہ کر اس نے ارمان کو گلے لگا لیا ..

اب چلو زیادہ سینٹی نہیں ہو نیچے چل کر ناشتہ کرتے ہیں۔ دونوں ہنسنے لگے ۔

اسلام علیکم! بابا جان معذرت ہم لیٹ ہو گئے ۔۔

کوئی بات نہیں میں خود بھی ابھی ہی آیا تھا۔انہوں نے پلیٹ میں کھانا رکھتے ہوئے کہا

Pg(11)

میں سوچ رہا تھا رحمان کہ تمہاری پڑھائی ختم ہونے کے بعد تم بھی میرے ساتھ میرے آفس میں کام کرو-

آخر میرے بعد تمہیں ہی تو آفس سنبھالنا

ہے۔

قاسم احمد نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔

جو سر جھکائے کھانا کھانے میں مصروف

تھا-- رحمان نے سر اٹھا کر دونوں کی طرف

دیکھا ۔۔

باپ کی آنکھوں میں امید تھی ۔کہ ان کا بیٹا ان کا سہارا بنے گا۔۔

اور بھائی کے آنکھوں میں انکار۔ ۔

ارمان نہیں چاہتا تھا کہ جس طرح اس آفس کی وجہ سے ۔

جیسے باپ کا پیار نہیں مل سکا اسی

طرح اب اسکا بھائی بھی صرف کام ہی پھنس کر

رہ جائے گا۔

رحمان نے انکار تو نہیں کیا تھا لیکن اس نے

ہامی بھی نہیں بھری تھی۔

           "_____________"

Pg(12)

سائرہ ایک بات پوچھوں۔۔ اریبہ نے آئس کریم کھاتے

ہوئے کہا۔

ہاں پوچھو تمہیں مجھ سے اجازت مانگ کر بات

کرنے کی ضرورت کب سے پیش آگئی۔

میڈم اریبہ قاسم بن احمد ۔۔ اس نے آئس کریم کا

کپ پھینکتے ہوئے کہا۔۔

"جسٹ فورمیلٹی " یارررر۔۔۔ اس بات پر دونوں نے قہقہہ لگایا۔۔

کیا پوچھنا ہے تم نے اریبہ پوچھو ۔ سائرہ نے اس کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔۔

کچھ خاص نہیں سائرہ رہنے دو ۔۔

ارے خاص ہو یاں عام تم پوچھو تو سہی۔ دیکھو

ایسے بات درمیان میں نہ چھوڑا کرو ۔ سائرہ نے

منہ بگاڑ کر کہا۔۔

تم میم آئمہ اور اپنی بہن آئزہ کو اتنی نفرت  کیوں کرتی ہو سائرہ۔۔

سائرہ اس کے سوال پر چونکی تھی ۔۔ کیونکہ سائرہ نے کبھی ان سے نفرت نہیں کی تھی ہاں

لیکن وہ ان کو نا پسند ضرور کرتی تھی۔

اس کو لگتا ہے کہ سب مذہبی لوگ صرف دکھاوا

کرتے ہیں۔ اصل میں وہ اتنے مذہبی ہوتے نہیں

جتنا وہ ظاہر کرتے ہیں۔۔

اریبہ نے اس کو اپنی طرف متوجہ کیا کن خیالوں

کی گہری کھائیوں میں چلی گئ ہو۔

اگر میرا سوال بڑا لگا ہے تو میں معذرت کرتی ہوں تم سے سائرہ۔ اریبہ اس کے ردعمل سے

پریشان ہوئی تھی۔۔

Pg(13)

نہیں اریبہ تمہیں معذرت کرنے کی ضرورت نہیں ہے

میں ان دونوں سے نفرت نہیں کرتی بس ناپسند کرتی ہوں۔جیسے اس نے خود کو ہی تسلی دی ہو ۔۔

اچھا اور تم انکو نا پسند کیوں کرتی ہو اریبہ نے اسکے لیے ایک اور سوال آگے رکھ دیا۔

کیا تم کوئی اور بات کرو گی اریبہ۔ سائرہ نے بگڑتے ہوئے کہا۔

میں وجہ جانتی ہوں سائرہ میں صرف تمہارے منہ

سے سننا چاہتی ہوں۔۔

تم میرے منہ سے سن کر کیا کروگی اریبہ۔ سائرہ نے اکھڑے ہوئے انداز میں کہا ۔

میں تمارا نظریہ ٹھیک کرنے کی کوشش کر سکتی ہوں سائرہ۔میں تمہاری دوست ہوں میں تمہاری بھلائی چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ تمہارا دل نفرت سے پاک ہو""

"جس دل میں کینہ ہو اس دل میں خدا نہیں بستا سائرہ "۔۔

تم بھی شروع ہو گئ اریبہ۔ تم۔چاہتی ہو کہ میں تمہیں بھی ناپسند کروں۔۔

نہیں سائرہ میں چاہتی ہوں کہ تم راہ راست پر

آ جاؤ ۔۔اس نے سائرہ سے ہمدردی کی۔

یہ راہ راست کیا ہے ۔ اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔

Pg(14)

راہ راست ۔ حق کا راستہ ہے ۔

اور "حق کا راستہ" کونسا ہوتا ہے ۔۔

حق کا راستہ "ہدایت " کا راستہ ہے

ہدایت کا راستہ کونسا راستہ ہوتا ہے۔ وہ سوال پر سوال کیے جا رہی تھی ۔

ہدایت کا راستہ سیدھا راستہ ہے سائرہ صراط مستقیم کا راستہ جس پر اگر سیدھے چلتے جائیں تو خدا مل جاتا ہے ۔

اور پتا ہے خدا کن کو ملتا ہے ۔

کن کو ملتا ہے اس نے تجسّس سے پوچھا۔

"جن کا دل مومن ہو"۔

لیکن میں تو مومن ہوں اس نے جیسے خود کو تسلی دینے کی کوشش کی ہو ۔۔

تم مومن" بائے بڑتھ "ہو سائرہ تم ایمان میں پیدا ضرور ہوئی ہو پر ایمان پر نہیں ہو۔

سائرہ کے منہ کے ذاویعے بدلے۔۔

اچھا چلو سائرہ میں چلتی ہوں۔ تم اس بارے میں

سوچنا ضرور۔

اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چلو کل ملیں گے انشاءاللہ۔۔۔۔

            "____________"