ہوں سچ کی راہ پر جو میں کوئ مزہ ہی نہیں
ہوں بیمار بھی بہت،مگر کذا بھی نہیں،
ہے کام جھام بھی بہت،مگر جزا ہی نہیں
ہوں یوں تو میں ٹھٹھر رہا،مگر ڈرا بھی نہیں۔
ارے چھوڑ یہ باتیں،یہ سب تو سوچ لیا تو نے
مگر اس رب کے ہیں کرم کتنے،یہ سوچا ذرہ بھی نہیں،
ہے مزہ بھی یہ بہت،ہے جزا بھی یہ بہت،
کہ حق کی راہ پر ہے تو،مگر مرا بھی نہیں۔
ہوں بس میں،میرا دکھ اور یہ اکیلاپن ہے
سچ کی راہ پر جو ہوں،
یہی نتیجہ ہے اس کا
یہ میرا حسن زن ہے۔
ارے آنکھیں کھول ہوش میں آ
یہ تو بس ابتداء ہی ہے،
یہ نتیجہ تو نہیں،بس ایک امتحان ہی ہے،
تو بس یہ مان کے چل کہ یہی مشعل راہ ہے۔
چل ٹھیک میں مان لی تیری بات
یہی مشعل راہ ہے،
مگر میں کیا کروں اس کا
کہ یہ راستہ ہی ویراں ہے۔
ارے نہیں ہے ویراں
تو ذرا غور سے تو دیکھ،
سب اہل وفا بھی یہیں،ہے مزہ بھی یہیں
اور تو اور ہے اس کی نگاہ کرم بھی یہیں۔
چل یہ بھی سچ ہے تیری بات
یہ میں مان گیا،
مگر جب سب کچھ ہے ہی یہاں
تو پھر یہ ویرانی کیا ہے۔؟
تو خود بھی ذرا سوچ نا
کہ یہ ویرانی کیا ہے،
ہے سبب صاف اس کا کہ یہ راستہ کھلا ہے
بس اہلے وفا کے لیے اور کھوجنے والوں کے لیے۔
چل ٹھیک،ہیں تیری سب باتیں سچی،یہ میں مان گیا
ہے سکون بھی یہاں،مزہ بھی یہاں اور سب اہل وفا بھی یہیں،
مگر ہے کمی بھی کہیں
کہ ہے دل میں ایک گوشہ جہاں سکون تو نہیں۔
تو ایک کام کر اور تو بتا یہ مجھے کہ کل کو کتنی نمازیں پڑھیں تھیں تو نے؟
تو وہ تو چھوڑ بیٹھا ہے کہ اصل سکوں ہے جس میں،
کہ کہتے ہیں مولا علی بھی یہی،کہ کرو نماز ادا،پھر پاؤگے تم مشکلیں نہ کہیں
ہے بات ایک تو بس یہی،پر ایک اور مگر،اور وہ یہ کہ تو جو کر،مگر غرور نہ کر۔
اب جاکے میں کہیں سمجھا ہوں تیری بات کا مقصد
کہ ہیں یہ غلطیوں میں غلطیاں بھی بس یہ دو ادد،
تو تو سچ ہی کہتا ہے،اور ہے یہ بات بھی سہی
کہ کروں جو اس کا حق ادا تو پاؤں نہ مشکلیں کہیں۔
(۲)
چل ذرہ بتا تو سہی حق کی راہ پہ ہیں ہم تو
پھر یہ پتھراؤ کیسا تھا؟ راہ میں،
مچل گئے تھے لوگ غضہ میں
کہ جیسے غلطی اپنی ہی تھی جو کہیں۔
تو ذرہ دیکھ نہ پایا،وہ لوگ تھے ہی نہیں
یہ حیواں تھے ہی اس لیئے کہ بھٹکا دیں تجھے راہ سے،
مگر جو دیکھا انہوں نے کہ تو ہلا بھی نہیں
تو آئے تیش میں اسی لیئے کہ مقصد ملا ہی نہیں۔
چل وہ تو ٹھیک ہے حیواں تھے بھی کہیں
مگر کچھ داڑھیاں بھی تھیں،کچھ دستاریں بھی تھیں،
کہ تھا یہ روح پرور منظر
کہ وہ تو تھے ہی لوگ نمازی،جو پتھر پھینک رہے ہم پر۔
تو سہی ہے تھی دستاریں ہی نہیں تسبیاں بھی تھیں
مگر سچ تو یہ ہے کہ تھی غیرت دیں نہ کہیں،
یہ تھی وہ بزدلوں کی فوج جو مچلی تجھے دیکھ کر
کہ آیا تو میداں میں تو ہوا جنگ کا انہیں ڈر۔
چل اس سے یہ تو سبق سیکھا میں نے
کہ نہیں آنا کسی کے بھی کہنے پر
کہ ہیں کچھ لوگ حاجی،نمازی،
پر ان کی غیرت ایمانی ہے سفر۔
H.A.T