Chapter 2 - muyat wala gur

عجیب جاہلانہ رسم ،

میرا ایک فوتگی والے گھر جانا ھوا، کیا دیکھتا ھوں کہ ایک لڑکا بہت ہی زیادہ رو رہا ھے

معلوم کرنے پہ پتہ چلا کہ جو فوت ہوئیں ہیں وہ رونے والے کی والدہ تھیں

میں ھکا بکا ایک طرف کھڑا ہو کے سوچنے لگا کہ بھرپور جوانی کے وقت اتنا بے رحم دکھ اس نوجوان کو آدھا کر دے گا

مجھ سے اس کا رونا دیکھا ہی نہیں جا رہا تھا ، اس کی چیخیں لگتا تھا قیامت لے آئیں گی

وہ اکلوتا بیٹا تھا اپنے ماں باپ کا

اچانک ایک بھائی صاحب آگے آتے ہیں وہ اس سے کھانے کا مینیو پوچھتے ہیں

میں حیران ہو جاتا ھوں کہ اس حالت میں وہ کھانا کیسے کھا سکتا ھے ،اس سے تو صحیح سے بولا بھی نہیں جا رہا

بعد میں پتہ چلا کہ وہ ان لوگوں کے کھانے کی بات کر رہے تھے جنہوں نے گھر افسوس کرنے آنا ھے

یہ ھو کیا رہا ھے ،یہ چل کیا رہا ھے

ان کے گھر کوئی شادی یا سالگرہ کا فنکشن نہیں ھے بلکہ ایک لڑکے کی جنت اسے چھوڑ کے چلی گئی ھے

بجائے اس چیز کے کہ ہم اس گھر کا حوصلہ بنیں اس گھر کے دکھ میں شریک ھو جائیں الٹا وہ لوگ ہماری گندی اور کبھی نہ مٹنے والی بھوک کا بندو بست کرنے میں لگ گے ہیں

کیا ہم اس قدر بے حس قوم ہیں کہ میت والے گھر بھی کھانا پینا نہیں چھوڑتے

اور پھر جنازے کہ بعد یہ جاہلانہ کھیل شروع ھوا ایک ایسا کھیل جسے دیکھ کے کسی غیرت مند کو موت آ جائے مگر ہمیں نہیں آتی

وہی لڑکا جس کی دنیا لٹ گئی برباد ھو گئی ہاں ہاں وہی لڑکا روتی آنکھوں کے ساتھ ان بھوکی ننگی زندہ لاشوں ،جن کی عقلوں پہ ماتم کرنا چاہیے ان کو کھانا دے رہا ھے کیا ان کو شرم نہیں آتی کیوں یہ غیرت سے مر نہیں جاتے

پھر میرے کانوں نے سنا کہ ایک آدمی نے اسی لڑکے کو آواز دے کے کہا کہ بھائی یہ پلیٹ میں لیگ پیس ڈال کے لانا

اف میرے خدا یہ کون لوگ ہیں جن کے پیٹ نہیں بھرتے ،ایسے لوگ دنیا میں ہی کیوں ہیں یہ مر کیوں نہیں جاتے

شرم نہی آتی اسی سے لیگ پیس مانگتے جس کی ماں مر گئی ھے

بجائے اس کے کہ تمہارا ہاتھ اس کے کندھے پہ ھو اور حوصلہ دے رہا ھو ، تمہارا ہاتھ لیگ پیس کو پڑ رہا ھے

ہمیں ترس یا رحم نہیں آتا یہ دیکھ کے بھی کہ لوگ روتے ھوۓ کھانا بانٹ رہے ہیں

میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو میت والے گھر سے ناراض ھو کے چلے جاتے ہیں کہ ہمیں کھانا نہیں دیا ،ہمیں کھانا نہیں پوچھا کسی نے

یہی گھٹیا لوگ کھا کھا کے پھر گندی ڈکاریں مارتے ہیں اور اسی میت والےگھر پے.