Asalam u Alaikum readers.....So here's the first Episode of my second novel ❤️❤️Hope you will like and enjoy it☺️
#بچپن_کا_شوہر😜
#از_یمنی_احمد✍️
#قسط__1
"عائز کے بچے ..... تم بچو گے نہیں .... میں تمہارا خون پی جاؤں گی ...." وہ عائز کے پیچھے دوڑتی چلا رہی تھی۔غصے سے اس کی دودھیا رنگت سرخ ہوچکی تھی۔
عائز ہنستا ہوا آگے بھاگ رہا تھا۔ اور وہ پیچھے پیچھے۔
"چچی جان بچا لیں ورنہ آج آپ کی اس چڑیل نے میرا خون پی جانا ہے۔" عائز فوراً سے مدیحہ بیگم کو دیکھتے ہی ان کے پیچھے چھپا تھا۔
"امی!!! آپ ہٹ جائیں پلیز ۔۔۔۔ میں نے آج اس کو نہیں چھوڑنا۔" وہ غصے میں عائز کو گھورتے ہوئے مدیحہ بیگم سے بولی۔
"دیکھیں چچی جان اس کو ۔۔۔۔ کیسے مجھ معصوم کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔" عائز معصومیت سے بولا۔
"ہوا کیا ہے پہلے مجھے کوئی یہ بتائے گا ؟" مدیحہ بیگم نے ان سے پوچھا۔
"چچی جان میں نا۔۔۔۔ "
"چپ کرو تم تو ۔۔۔ اپنے مطلب کی کہانی سناؤ گے۔" عائز ابھی شروع ہوتا آنیا نے اسے چپ کروادیا۔
"امی!! میں آپکو بتاتی ہوں ، میں نے اپنے لیے کل چاکلیٹ فریج میں رکھی تھی ،وہ یہ موٹا کھا گیا۔" وہ روہانسی ہوگئی۔
"بس اتنی سی بات پر تم پورے گھر میں چیختی پھر رہی ہو؟"وہ حیران ہوئے بنا نہ رہ سکیں۔
"چچی جان مجھے نہیں پتہ تھا۔۔۔۔"
"چپ رہو تم ۔۔۔۔ امی اس کو پتہ تھا کہ وہ میری چاکلیٹ ہے میرے علاوہ اور کھاتا ہی کون ہے ؟ ہاں۔۔۔۔۔؟ اور امی یہ اتنی سی بات نہیں ہے ۔آپ کو پتہ ہے چاکلیٹ میری فیورٹ ہیں۔ آپ سمجھ کیوں نہیں رہیں۔۔۔"وہ عائز کو بولنے کا موقع دئیے بغیر غصے سے کہتی آخر میں مدیحہ بیگم سے دکھ بھرے لہجے میں بولی۔
"خیر اب اس معاملے کو رفع دفع کرو اور لے لینا چاکلیٹ۔۔۔ دنیا کی آخری چاکلیٹ تو نہیں تھی جو اس طرح سے بی ہیو کر رہی ہو۔۔۔۔ " مدیحہ بیگم آنیا کو سناتی کچن کی طرف بڑھ گئیں۔
"ہاں حد ہوگئی۔۔۔۔ آخری چاکلیٹ تھوڑی تھی۔۔۔۔ " عائز نے اسے چڑاتے ہوئے لا پرواہی سے کہا۔
"میں تمہیں ہضم نہیں ہونے دونگی ۔۔۔۔ عائز!!!" آنیا کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے عائز نے پھر سے دوڑ لگا دی۔
•••••••••••••••••••••
ابراہیم اور فردوس بیگم کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ بڑا بیٹا احمد ابراہیم اور چھوٹا بیٹا ظفر ابراہیم۔۔۔ بڑے بیٹے احمد صاحب اور ان کی زوجہ ثانیہ۔۔۔ ان کے دو بیٹے تھے ۔۔۔عریش احمد اور عائز احمد۔۔۔ عریش جو کہ BBA اور MBA کے بعد احمد صاحب کے ساتھ بزنس میں آگیا تھا۔ اور عائز ابھی پڑھ رہا تھا وہ BBA کے لاسٹ ائیر میں تھا۔
ظفر ابراہیم اور ن کی زوجہ مدیحہ کی ایک ہی اکلوتی بیٹی تھی۔ "آنیا ظفر ابراہیم " سب کی لاڈلی۔۔۔سب سے اس کی بہت بنتی تھی۔ سوائے ایک انسان کے۔۔۔ یعنی عریش احمد کے۔۔۔ جو کہ آنیا کے مطابق انتہائی کھڑوس قسم کا انسان تھا۔ البتہ عائز اور آنیا کی آپس میں بہت بنتی تھی لڑتے جھگڑتے بھی تھے مگر ایکا بھی بہت تھا۔ آنیا عائز سے تین چار مہینے ہی بڑی تھی۔ اس کے بعد ابراہیم صاحب کی ایک بیٹی رابعہ تھیں۔ ان کے بھی دو ہی بچے تھے۔
"اریج اور سبحان۔۔"اریج آنیا سے ایک سال ہی چھوٹی تھی اور سبحان ابھی فرسٹ ائیر میں تھا۔ رابعہ بیگم اپنے بچوں اور شوہر زاہد کے ساتھ کویت رہتی تھیں۔
••••••••••••••••••••••
"میرا سر مت کھاؤ ۔۔۔۔۔ " عائز جھنجھلاتے ہوئے بولا۔
"میں نے تمہارا سر کھانا بھی نہیں ہے آئی سمجھ۔۔۔۔ مجھے آئسکریم ہی کھانی ہے۔۔۔"آنیا بضد ہوئی۔
"آخر ایسی بھی کیا آفت آگئی جو آئسکریم لازمی کھانی ہے۔" عائز لاپرواہی سے بولا۔
"عائز تم نے مجھے کہا تھا کہ اگر میں شرط جیتی تو تم آئسکریم کھلاؤ گے۔۔۔۔ مجھے کھانی ہے کھانی ہے کھانی ہے ۔۔۔۔" وہ زور دیتے ہوئے بولی۔
"اچھا۔۔۔۔ اولمپکس میں نہیں جیتی تم لڈو ہی تھی نا بس۔۔ اتنا واویلا نہ مچاؤ ۔۔۔۔۔ " عائز موبائل میں لگ گیا۔
وہ دونوں اس وقت لاؤنج میں بیٹھے تھے۔ آنیا سارا ٹائم نیچے والے پورشن میں ہی پائی جاتی تھی (عریش کے آنے سے پہلے تک۔) اور وہ عائز کے ساتھ لڈو کھیل رہی تھی جب انہوں نے شرط لگائی کہ جو ہارا وہ آئسکریم کھلائے گا۔ اور اب عائز ہار گیا تھا۔ آنیا تب سے عائز کے پیچھے پڑی ہوئی تھی لیکن عائز کھلانے سے ہی انکاری تھا۔ وہ عائز ہی کیا جو سیدھے طریقے سے بات مان جائے۔ کوئی انھیں چپ بھی نہیں کرواتا تھا کہ ان کے روز کا معمول تھا۔
آنیا منہ پھلائے بیٹھی ہوئی تھی تب ہی عریش نے لاؤنج میں قدم رکھا۔ وہ اس وقت آفس سے آرہا تھا۔ عریش نے اندر آتے ہی سلام کیا۔ عائز نے سلام کا جواب دیا اور موبائل رکھ دیا۔ جبکہ آنیا اسی طرح بیٹھی رہی۔ عریش آنیا کی طرف دیکھتا ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا عائز کے برابر میں بیٹھ گیا۔
"عائز۔۔!! آج موسم خراب نہیں لگ رہا؟" عریش نے آنیا کی طرف دیکھتے ہوئے شرارت سے پوچھا۔آنیا نے عریش کو گھورا۔
"اور آپ کا تو 24 گھنٹے ہی خراب رہتا ہے۔" وہ غصے سے پیر پٹختی وہاں سے واک آؤٹ ہوگئی۔ عریش حیران رہ گیا۔
اس نے عائز کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ عائز نے کندھے اچکا دئیے۔
"باقی سب کدھر ہیں ؟" عریش نے خود ہی موضوع بدلتے ہوئے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"چچی جان اوپر اور امی جان کچن میں ہونگیں۔"
"اوکے ۔" وہ کہتا ہوا وہاں سے اٹھ گیا۔ عائز پھر سے موبائل پہ لگ گیا۔
••••••••••••••••••••••
" آئے بڑے مسڑ ہٹلر ۔۔۔۔۔ آج موسم خراب نہیں لگ رہا ؟" آنیا غصے سے اپنے کمرے میں ادھر سے ادھر چکر کاٹتے ہوئے عریش کی نقل اتارتے ہوئے بولی۔
"پتہ نہیں سمجھتے کیا ہیں خود کو ؟"
"عریش احمد" آنیا کی بات کے جواب میں بڑا محضوظ ہو کر کہا گیا۔ وہ آواز پر چونک کر پلٹی تو عریش نچلا لب دانتوں میں دبائے کھڑا تھا۔ اس وقت وہ اپنے آفس والے حلیے میں ہی تھا۔ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی اور شرٹ کی آستینیں کہنیوں تک مڑی ہوئیں جیب میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔ بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے۔ چہرے پر بھی تھکان واضح تھی۔ بلاشبہ وہ بہت وجیہہ تھا۔
"تو میں کیا اچار ڈالوں آپ کے نام کا؟" آنیا چبا چبا کر بولی۔
"میں نے ایسا کب کہا۔" عریش چلتا ہوا آنیا کے بیڈ پر بیٹھ گیا۔ آنیا کی بھوری آنکھیں حیرت سے کھل گئیں۔ عریش اور اتنا بے تکلف۔۔۔
"کیا چاہیے؟" آنیا نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔
"غصے میں کیوں ہو؟" عریش نے اس کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔ وہ دونوں ہاتھ پیچھے کیے بیڈ پر ٹکائے بیٹھا تھا۔
"آپ سے مطلب ؟؟" آنیا نے ابرو اچکائے۔
"تمیز سے بات کیا کرو۔۔۔ میری نرمی کا ناجائز فائدہ مت اٹھاؤ۔۔۔" وہ ایکدم سیدھا ہوکر بیٹھا۔
"نرمی۔۔۔کونسی نرمی۔۔۔ کب کی آپ نے۔۔؟ آنیا بھی اسی کے انداز میں بولی۔
"سختی بھی نہیں کی، میں نے ابھی۔۔۔۔ سمجھی .... جس دن میں نے سختی کی نا۔۔۔ کوئی روک بھی نہیں سکے گا مجھے۔" وہ غصے سے کہتا کمرے سے نکل گیا۔
جب بھی وہ سوچتا تھا کہ آنیا سے آرام سے بات کرے وہ اس کو کسی نا کسی بات پر غصہ دلا دیتی تھی۔ آخر پتہ نہیں ایسا کب تک چلنا تھا۔
"ہونہہ۔۔۔۔ آئے بڑے ۔۔۔۔ پتہ نہیں کیوں میرے سر پر مسلط کر دیے۔۔ فضول کا عذاب ۔۔۔ " وہ غصے سے سوچتی بیڈ پر ہی ڈھیر ہو گئی جہاں ابھی کچھ دیر پہلے عریش بیٹھا تھا۔
•••••••••••••••••••••
Ap log zaror btana k kesi lgi mujy ap k response se hosla milta ha...💕
My piyare piyare readers☺️
Ap ki masoom si choti si writer ki trf se😍🙈