Chereads / Lams / Chapter 1 - زیست سنہائ

Lams

Amman_Writes
  • --
    chs / week
  • --
    NOT RATINGS
  • 2.5k
    Views
Synopsis

Chapter 1 - زیست سنہائ

زیست تنہائ

از قلم:عمان اکرم

"آوچ۔۔۔۔

اوہہہہہوو۔۔۔۔ی یہ یہ میں نے نن۔۔۔ نہیں کیا میں سچ کہہ رہی ہوں مجھ سے نہیں گرا ز۔۔۔زر۔۔۔زرک زرک کدھر ہیں آپ"۔زرشائم جو شاپنگ سنٹر شاپنگ کے لیئے آئ تھی وہاں پر مول کا ایک بہت بڑا نقصان کر بیٹھی تھی۔اور اب گھبرائ ہوئئ سیل مین کو دیکھ رہی تھی جو بہت غصہ میں اسی کو دیکھ رہا تھا اتنا بڑا نقصان کرکے بڑے دھڑلے سے جھوٹ بول رہی تھی.زرک جو میل سائیڈ پر اپنے لیئے دیکھ رہا تھا زرشائم کی آواز سن کر فیمیل سائیڈ پر چلا گیا۔اور آگے جا کر حیران رہ گیا۔شاپنگ سنٹر کا اسنے حلیہ ہی بدل دیا تھا۔م می میں میں نے ج جاجان بوجھ کر نہیں کیا پتا نہیں بس تم پاگل ہو گئی ہو زرشائم۔پیچھے ہو زرک نے اسے سائیڈ پر کیا اور ساری چیزیں ٹھیک کرنے لگا۔اسکے بعد کاؤنٹر پر جاکر نقصان پورا کیا۔اور پھر زرشائم کا ہاتھ پکڑ کر شاپنگ سنٹر سے بنا کچھ لیئے وہ باہر آگیا۔اسکا موڈ بہت حد تک بگڑ چکا تھا۔

زرشائم جو گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی مسلسل اپنی نیلز کو دانتوں سے کچل رہی تھی اور ساتھ ساتھ آنسو بھی بہا رہی۔لیکن زرک کی ریش ڈرائیونگ نے اسے اونچا اونچا رونے پر مجبور کردیا تھا۔اگر تم یہ سوچ رہی ہو کہ میں تمہارے ساتھ ہمدردی کروں گا تو یہ سوچ اپنے دماغ سے نکال دو تمہاری وجہ سے لاکھوں کانقصان ہواہےمیرا۔

"اب تمہیں مجھ سے زیادہ یہ کاغذ اہمیت دینے لگا ہے"۔زرشائم نے سرخ آنکھوں سےپوچھا جو مسلسل رونے کی وجہ سے ہلکی ہلکی متورم بھی دکھائی دینے لگی تھی۔"میں نےکہاناچپ اوراگر اب آوازآئ تواٹھاکرگاڑی سےباہرپھینک دوں گا"۔اس کی شعلےبرساتی آنکھوں سےوہ اسکےغصےکااندازہ لگاسکتی تھی اسی لیئے شیشے کی طرف اپنا چہرہ کر کے خاموشی سے آنسو بہانے لگی۔اب اسے خود پر اور بھی غصہ آرہا تھا۔نجانے وہ ایسی کیوں تھی ڈری سہمی ہوئی۔اگر کچھ غلط کر بیٹھتی تو پہلے تو انکار کر دیتی لیکن بعد میں سب کے سامنے خود ہی اعتراف کر کے سب سے ڈانٹ کھاتی اور پھر کئی راتیں اسی طرح جاگ کر اور ڈر کر گزار دیتی۔

💞💞💞💞💞

زرک ہاشم صاحب کا بیٹا جب کہ حسین صاحب کا بھتیجا تھا۔دونوں بھائ ایک ہی گھر میں اکھٹے اور محبت سے رہتے جبکہ رمشہ ہاشم کی بیگم اسکا زیادہ ہاتھ تھا ان دونوں بھائیوں کو ساتھ رکھنے میں۔ہاشم اور رمشہ کا ایک بیٹا زرک اور ایک بیٹی ام البنین تھی اسی طرح حسین اور علیشبہ کے دو بیٹے اور دو بیٹی تھی۔بڑا بیٹاکاشف شادی کروا کر لندن میں شفٹ ہوچکا تھا۔جبکہ چھوٹا کاشان ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کر رہا تھا۔اسکے بعد زرشال اور پھر زرشائم تھی زرشائم ایک ناسمجھ بیوقوف لڑکی تھی لیکن زرک کے علاوہ کوئ بھی اسکو نہیں سمجھ سکتا تھااسی لیئے آرمی سے چھٹیاں آنے کہ بعد اسکا زیادہ تر وقت زرشائم کہ ساتھ ہی گزرتا تھا۔لیکن کبھی کبھی وہ خود تھک جاتا تھا اسے اسکی حرکتوں پر غصہ نہیں آتا تھا وہ جان بوجھ کر نہیں کرتی تھی لیکن وہ اسکے اچانک سے امڈ آنے والے خوف پر اسے غصہ آتا تھا اسکے گھنٹوں رونے والی عادتوں سے چھٹکارا چاہتا تھاوہ اسے بہادر بنتا دیکھنا چاہتا تھا ۔زرشال نے سمپل ماسٹر کرکے گھر داری کی طرف آگئی تھی۔جبکہ زرشائم ایف ایس سی میڈیکل میں ایگزیم دے کر رزلٹ کا انتظار کر رہی تھی۔جبکہ زرک آرمی جوائن کر چکا تھا اور ایک اعلی عہدے پر فائز تھا۔اور ام البنین بھی زرشائم کی طرح رزلٹ کے انتظار میں تھی۔

گاڑی گیراج میں آکر جھٹکے سے رکی تھی۔زرشائم کا سر ڈیش بورڈ پر لگتے لگتے بچاتھا کیونکہ جلدی سے زرک نے اپنا ہاتھ اس جگہ پر رکھ دیا تھا۔زرشائم جلدی سے سیدھی ہوئ تھی تو زرک گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔

کھڑوس ہر وقت گھورتا رہتا ہے اللّٰہ پوچھے گا اس کو تو۔زرشائم کہتے ہوے گاڑی سے نکلی تھی۔

جیسے ہی گھر کے اندر داخل ہوئ تو سب کھانا کھا رہے تھے۔لیکن زرک کو کھانے کہ ٹیبل پر نہ دیکھتے ہوے وہ خاموشی سے اپنے روم میں جانے لگی توپیچھے سے اسے کھانا کھانے کا ہاشم صاحب نے کہا تھا۔میں کھا چکی ہوں وہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئ

💞💞💞💞

"بہت بھوک لگی ہےبازار سے آکر بھی نہیں کچھ کھایا تھا اور اب تو انتہا ہوئ ہے۔اٹھ کر کچن میں گئی تو یہ نا ہو کوئ اٹھ کر آجاۓ۔اور سمجھے پتا نہیں کیا کر رہی ہوں خیر ہے اپنے گھر میں ہوں کونسا کسی دوسرے کہ گھر میں ہوں زری سوچتے ہوئے روم سے باہر آئ اور فریج سے رات کا بنا ہوا بھنڈی گوشت نکال کر اوون میں گرم ہونے رکھا اسکے بعد اسی کہ اندر روٹی رکھ دی اور خود گرم ہونے کا انتظار کرنے لگی۔کھانا گرم کر کےکھا کر وہ اپنے روم میں جانے لگی تو برے طریقے سے سامنے سے آتے کاشان میں لگی۔وہ جو تھکا ہارا گھر آیا تھا اس بیوقوف نے اسے اور طیش میں کر دیا تھا۔وہ گر جاتی اگر پیچھے سے آتا زرک نا تھامتا وہ عجلت میں تھا اور اسکی تیاری سےبھی لگ رہا تھا وہ کہیں جارہا ہے۔"تم آندھی ہوگئ ہو کیا دیکھ کر نہیں چل سکتی" .نہ ۔۔نہیں بھائ وہ میں ۔۔میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔زرشائم نے روتے ہوے کہا۔اور وہاں سے نکل کر ٹیرس پر چلی گئ۔ "کیا ہوگیا ہے کاشان تمہیں کیوں ہر وقت اسی پر چیختے رہتے ہو"

"تم زیادہ اسکے ہمدرد کیوں بنتے ہو۔؟کاشان نے ایک آبرو چکاتے ہوے پوچھا۔

"ہاں تو ہوں اسکا ہمدرد اسکا دوست تمہیں کیا مسئلہ ہے۔" آخر میں زرک نے غصے میں کہا۔

چلو میں دعا کروں گا تم آخری سانس تک اپنی دوستی کو نبھاؤ۔کاشان نےونک کرتے ہوۓکہا۔

گڈ۔زرک نے مسکراتے ہوے اپنا موبائل اسکے شولڈر پر تھپکی کی طرح مارتےہوۓکہا۔اور باہر چلا گیا جبکہ کاشان اپنے کمرے میں چلا گیا۔

زرک ٹھیک کہتا ہے تم سے زیادہ بیوقوف کم عقل ابھی تک اس دنیا میں نہیں آیا۔وہ رو رہی تھی اور روتے ہوۓ خود کو سوچوں کے تسلسل میں رکھتے ہوۓ وہ ڈپٹ رہی تھی۔ جب اسے پیچھےسے کسی کے ہونے کا احساس ہوا۔پیچھے مڑ کر دیکھا تو زرک کھڑا تھا۔تم پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے رونے کا شغل ہی کر رہی ہوں۔اسکی سرخ اور ہلکی ہلکی سوجھی ہوئ آنکھیں اس بات کی چغلی کر رہے تھے کہ وہ بہت دیر اسی طرح روتی رہی ہے۔"کیا ہوا ہے؟" زرک نے ناک کی سیدھ میں سامنے دیکھتے ہوے پوچھا۔

"کچھ نہیں۔۔۔" زری نے ناک اور آنکھیں صاف کرتے ہوۓ کہا۔

"تو یہ سمندر کس خوشی میں بہایا جا رہا ہے۔۔۔؟" نظریں ابھی بھی سامنے ہی تھی۔' بس ہمارا دل کر رہا تھا۔۔۔"

"زری مجھے سمجھ نہیں آتا کہ آپ کا ہی کیوں دل کرتا ہے ہر الٹے کام کرنے کو۔آپکو پتا ہے میں آپکی وجہ سے اپنا آدھا کام چھوڑ کہ آیا ہوں کہ تم یقیننا رو رہی ہوگی۔اور وہی ہوا وہی اپنے الٹے کام کر رہی ہو۔"

"کیا کہنا چاہتے ہو رونا الٹا کام ہے؟" زری نے خشمگیں نگاہوں سے اسکی طرف دیکھا جبکہ آخری جملے میں اسکی آواز پھر سے کانپ گئ تھی۔جیسے دوبارہ رو دے گی۔تو زرک نے اسکی طرف دیکھا۔

"تمہیں مسئلہ کیا ہے زری آخر چاہتی کیا ہو تم یہ ہر ایک کہ آگے آنسو بہانے سے کیا ملتا ہے۔بلکہ معذرت ہر ایک کہ آگے نہیں اکیلے میں بھی ہر وقت تم کیوں روتی ہو۔تمہیں لوگوں نے پاگل کہنا شروع کر دینا ہے۔نقصان کر کے پہلے تم انکار کر دیتی ہو اسکے فورا بعد مان بھی جاتی ہو۔چھوٹا سا نہیں تو کم از کم بڑا مسئلہ ہے تو بتاؤ کسی ڈاکٹر سے کنسلٹ کرتے ہیں۔پر ایسے کیوں بن رہی ہو۔تم اگر غلطی کر لیتی ہو تو ماننے کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔کچھ کرنا ہے تو کرو مگر غلط ہونے کی بھی امید رکھو تاکہ کچھ غلط ہو توتم "پھر کیاہوااگلی بارصحیح"کہہ کر آگے بڑھ جاؤ۔پر نہیں پھر تمہیں زری کون کہے گا۔"

زرک بولنے پر آیا تو بولتا ہی چلا گیا اور زری پاس کھڑی خاموشی سے آنسو بہاتی رہی۔وہ بھی تو یہ ہی وجہ تلاش کر رہی تھی کہ وہ ایسی کیوں ہے اگر غلط ہو جاتا ہے تو اسے قبول کیوں نہیں کرتی کیوں گھبراتی ہوں کچھ غلط ہونے سے۔

"پتا نہیں زرک میں ٹھیک کرنا چاہتی ہوں پر ٹھیک کرنے کہ چکر میں مجھ سے ہمیشہ غلط ہوجاتا ہے۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ میں نے کیا کرنا ہے۔اور کر کیا جاتی ہوں۔میں بہت کوشش کرتی ہوں کچھ بھی مجھ سے غلط نہ ہو پر پھر بھی ہوجاتا ہے۔" آنسو پھر سے اسکی پلکوں کی باڑ توڑ کر گر رہے تھے۔'چلو خاموش ہوجاؤ۔تھوڑی دیربعدفجر ہوجاے گی نماز ادا کر کے سونا۔اوکےےے؟"زرک نے اسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

اوکے اسنے ہلکا سا سر کو اثبات میں جنبش دی تھی۔گڈ میں جارہا ہوں اگلے ہفتے ملاقات ہوگی۔اور ہاں ایک بات یاد رکھنا میں جب اگلی دفعہ آؤں تو مجھے روتو سی زری نا ملے دیکھو زری ہم صرف کزن ہی نہیں بہت اچھے دوست ہیں۔اور میں ایک اچھے دوست کی طرح تمہیں سمجھانا چاہتا ہوں کہ پلیز یہ لوگوں سے ہمدردیاں لینے والا خول اپنے دماغ سے نکال دو۔اور سریئس ہو جاؤ زندگی میں۔

میں کوشش کروں گی۔خود کو غلط اور ٹھیک قبول کرنے کی عادت ڈال لوں۔

شاباش زرک نے اپنا ایک بازو اسکے گرد پھیلایا تھا۔اور چلا گیا تھا۔جبکہ زری ادھر ہی کھڑی اسکی باتوں کو سوچ رہی تھی۔

💞💞💞💞

زری جاؤ کچن میں چولہا جل رہا ہے آگ تھوڑی کم کر دو۔اوکے تائ ماں جاتی ہوں بس دو کاش رہ گئ سیب کی یہ کھا کر جاتی ہوں۔زرک کو گئے دو دن ہو چکے تھے اور اسکے جانے کے بعد زری نے بہت کوشش کی تھی خود کو نارمل کرنے کی وہ گھر والوں کہ ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگی تھی۔باتیں کرنے لگی تھی۔گھر والے بھی تھوڑا سکون میں تھےکہ زری ٹھیک ہوتی جاری ہے۔ہلکی ہلکی جلنے کی سمیل آنے لگی تو زری بھاگ کر کچن میں گئی یہ کیا ۔اوہہہ یہ کیا کر دیا میں نے اسنے جلدی سے چولہا بند کیا اورناک پر اپنا دوپٹہ رکھ لیا اتنی دیر میں تائ ماں کچن میں داخل ہوئ تو جلنے کی سمیل پورے کچن میں پھیل چکی تھی۔انہوں نے بھی اپنا ناک ڈھانپا" اے لڑکی یہ تو نے کیا کر دیا۔کہاں گیا ہوا ہے دماغ تمہارا"۔لیکن اس دفعہ زری پہلے کی طرح گھبرائ نہیں تھی نہ روئ تھی۔"وہ تائ جان میں تو ابھی آئ تو دیکھا یہ جل چکا تھا۔" آپ ہی آگ تیز کر کے گئ تھی۔تائ جو پہلے پریشان تھی پھر حیران ہوئ تھی کہ یہ وہی زری ہے نا روئ ڈری سہمی ہوئ اوراب بول رہی تھی غلطی کو مان رہی تھی نہیں بلکہ دوسرے کو احساس کروا رہی تھی کہ آپنے غلط کیا ہے۔معاف کریے گا تائ جان پر یہ میں نے نہیں کیا۔زری کہہ کر کچن سے چلی گئ تھی ۔جبکہ تائ وہی پر کھڑی کبھی پتیلی کو تو کبھی دروازے کو دیکھتی جہاں سے ابھی ابھی زری نکلی تھی۔

💞💞💞💞

"ہیلو ہیلو میں میجر ارسلان بات کر رہا ہوں۔زرک ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہیں آپریشن کےدوران وہ زخمی ہو گئے ہیں تو ہم انہیںتو آپ وہاں پہنچ جائیں۔پچھلے 15 منٹ سے فون بج رہا تھا۔اور جب اٹھایا گیا تو یہ خبر سن کر زری کہ پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔"

💞💞💞💞

تائ ماں جو کچن سے نکلی تھی سامنےزری کو سٹیچو کی طرح کھڑا دیکھ کر پریشان سی اسکے پاس آئ زرک کے جانے کہ بعد وہ آج اپنے کمرے سے باہر آئ تھی ورنہ اس دن سے اسنے خود کو کمرے میں بند کر رکھا تھا۔اسکے لیئے یہ بات نا قابل قبول تھی کہ زرک سے اب وہ اس دنیا میں کبھی نہیں مل سکتی۔وہ کمرے سے نکل کر زرک کے روم میں جانے لگی اس گھر میں صرف زری کو اجازت تھی کہ زرک کہ کمرے میں آجا سکتی تھی باقی کسی کو بھی زرک نے اجازت نہیں دی تھی۔ لیکن تائ کے لاونج میں آکر پھر سے کھڑی ہوگئی

۔"تائ ماں وہ کہتا تھا بہادر بنو حقیقت کا سامنا کرنا سیکھو۔دیکھیں وہ مجھے کس حقیقت سے واسطہ پڑوا گیا جس بات کو میں کبھی خوابوں میں بھی سوچنا نہیں چاہتی تھی وہ اس حقیقت سے روشناس کروا گیا۔" وہ وہی کھڑی تائ کے کندھے سے لگے پھر سے رو دی تھی تائ ماں اسے کہیے نا کہ وہ واپس آجاۓ اس کے بغیر اسکی زری بلکل کمزور ہے۔ہم بچپن سے بہت اچھے دوست تھے ہر جگہ اکٹھے جاتے ہیں اس دفعہ وہ مجھے ساتھ کیوں نہیں لے کر گیاوہ جانتا تھا نا کہ میں کیسی ہوں مجھے ہر کوئ نہیں سمجھ سکتااور نہ ہر کوئ اسکی طرح سمجھا سکتا۔بس میری بچی خاموش ہوجا دیکھ نا تو خود کہہ رہی ہے کہ وہ تجھےبہادر بنتا دیکھنا چاہتا تھا تو بہادر بن ایسےنا رو۔تائ ماں نے دلاسا دیتے ہوۓ اسے صوفے پر بٹھایا اور پانی پلانے لگی۔

"دوسروں سے ہمدردیاں کب تک لیتی رہو گی زری اپنے آپ کو کمزور مت سمجھو جو ہونا تھا ہوگیا۔معاشرے میں سروائیو کرنا سیکھو۔اٹھو ہمت کرو۔" زرک کی باتیں ایک بار پھر سے اسے ہمت دے رہی تھی۔اور اسنے اسکی باتوں پر عمل کرتے ہوۓ فورا اسی طرح آنسو صاف کیئے جیسے اس دن اسکی باتوں پر عمل کرتے ہوے آنسو صاف کیئے تھے۔اور جاکر نماز کی تیاری شروع کر دی۔

💞💞💞💞

"کیپٹن زرشائم آپ یہاں کیا کر رہی ہیں اور وہ بھی اتنی سردی میں؟" میجر ارسلان نے دور سے کسی کو برف کی پہاڑی پر تنہا کسی سوچ میں گم بیٹھے دیکھا تو دیکھنے چلا آیا

"سر جب انسان مظبوط ہوتا ہے نا اندر سے تو پھر اسے باہر کا موسم اور لوگوں کے رویئے کچھ نہیں کہہ سکتے۔"

"خیریت ہے لگتا ہے آج پھر آپکو زرک شدت سے یاد آرہا ہے۔" میجر ارسلان ہاتھوں کو مسلتے ہوئے وہی بیٹھ گیا۔ "سر یاد وہ آتے ہیں جو دور ہوتے ہیں بچھڑ چکے ہوتے ہیں جبکہ مجھ سے اب تک زرک نہیں بچھڑا اسکی ہر بات پر عمل کرنا مجھ پر فرض ہے اسکی ہر بات میرے زہن میں رہتی ہے۔وہ کبھی مجھ سے جدا ہو ہی نہیں سکتا۔آپکو پتا ہے میجر ارسلان جب ایک انسان دوسرے انسان سے جدا ہوتا ہے نا تو وہ ایک کام کرتا ہے یا تو وہ جس سے جدا ہوتا ہے وہ ٹوٹ جاتا ہے یا پھر اور مظبوط ہوجاتا ہے۔ جبکہ میجر زرک مجھ سےنہ جدا ہوۓ اور نہ ہی بچھڑے وہ میرے اندر ہے جو مجھے ہر نئے دن ایک نئی طاقت دیتا ہے مجھے مظبوط کرتا ہے۔اس شخص نے کانچ کے باریک باریک زروں کی طرح بکھری ہوئی لڑکی کو جوڑا ہے۔پر افسوس جب وہ کانچ کی لڑکی جڑ گئ تو اسے روح کی ضرورت تھی اور اس شخص نے اپنی روح اس لڑکی میں ڈال کر اسے مرکت کی طرح مظبوط کردیا۔یہ میرا یقین ہے کہ میرا زرک میرے اندر ہے وہ بھلا کیسے مجھے خود سے جدا کرسکتا ہے۔کیسے مجھ سے دور جاسکتا ہے۔"اسنے سامنے برف پوش چوٹیوں کو دیکھتے ہوۓ اپنی ٹھنڈی آنکھوں کو زور سے بند کیا تھا۔جنہیں وہ کبھی بھی زرک کہ یاد آنے پر آنکھوں سے آنسو نہیں بہنے دیتی تھی بلکہ اور مظبوط کرتی تھی خود کو۔یہ ہی تو اسکا سفر تھا۔جو اب اکیلے کاٹنا تھا۔