بڑے تاجروں اور ٹرانسپورٹروں نے ٹیکس میں اضافے کے خلاف پہیہ جام ہڑتال کر رکھی تھی۔ جب ضرار نے سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر دیکھی تو اپنی کار لے کر " میاں جی" کے ڈیرے کی طرف نکل پڑا۔ وہ ڈیرے کے صحن میں داخل ہوا ہمیشہ کی طرح ملنگ اُسے برگد کے پیڑ کے نیچے بیٹھا ہوا نظر نہیں آیا، اُس نے ارد گرد دیکھا۔ لنگر خانے کی باہر سے کنڈی لگی ہوئی تھی۔
خادموں کے دونوں حجروں کے دروازے بھی بند تھے۔ ملنگ کبوتروں والے کھڈے کے پاس آلتی پالتی مار کر دانہ چنتے ہوئے کبوتروں کی موبائل کے ساتھ ویڈیو بنا رہا تھا۔
ضرار کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آ ٹپکی۔ ضرار نے اپنے سامنے میاں جی کے حجرے کی طرف دیکھا جس کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ وہ حجرے کی طرف چل دیا۔
داخل ہوتے ہی با آوازِ بلند سلام کیا۔
میاں جی اور ایک بھاری بھرکم شخص نے سلام کا جواب دیا۔ اُس شخص کے ساتھ بیٹھی ہوئی خاتون خاموش رہی۔
میاں جی نے ضرار کو ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
"میاں جی ! ہم اپنی مرضی سے دے رہے ہیں۔" سونے میں لدی پھدی خاتون نے خاکی لفافے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، جو اُس کے شوہر نے میاں جی کی طرف کر رکھا تھا۔ میاں جی نے شوہر کی طرف دیکھا پھر لفافہ پکڑ کر اپنے درمیان پڑی ہوئی دراز والی چھوٹی سی میز پر رکھتے ہوئے بڑی شائستگی سے سمجھانے لگے :
"ہماری مرضی …؟ بی بی ! ہماری مرضی بھی تو اُس کی طاقت کی محتاج ہے۔
"
"ہم سمجھے نہیں ! " شوہر نے خاتون کو ایک نظر دیکھنے کے بعد میاں جی سے کہا۔ میاں جی اپنی نشست سے اُٹھتے ہوئے بولے :
"ظہر کا وقت ہو گیا ہے۔" میاں جی کے اُٹھتے ہی وہ تینوں بھی کھڑے ہو گئے۔
"بہشت میں رہنے والے " تم بیٹھو میں نماز پڑھ کر آتا ہوں"
میاں جی نے ضرار کو حجرے میں رُکنے کی اجازت دے دی۔
یہ بات اُن دونوں کے لیے جانے کا اشارہ تھی۔
میاں جی اپنے ڈیرے کے پاس والی مسجد میں تشریف لے گئے۔ اُن کے جانے کے بعد شوہر نے خاکی لفافے کی طرف دیکھا۔ جو اُس کے نزدیک بہت خاص، جبکہ میاں جی کے نزدیک بہت سارے تصویر والے اعلیٰ کاغذ ایک عام سے خاکی لفافے کا لباس اُوڑھے ہوئے تھے۔
"اس لفافے میں پورے دو لاکھ ہیں۔ میاں جی کے آنے تک ان پیسوں کا خیال رکھنا۔" شوہر نے ضرار سے کہا۔
"مجھے کینسر ہو گیا تھا … میاں جی کے دموں سے آرام ملا ہے مجھے ! یہ پیسے میرے کہنے پر ہی چٹھہ صاحب نے میاں جی کو دیے ہیں۔
" خاتون نے کندھے اُچکاتے ہوئے ضرار کی طرف دیکھ کر شوخی ماری۔ ضرار نے اُن کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ دونوں وہاں سے چلے گئے۔
جب وہ دونوں ڈیرے سے باہر نکلے تو اُن کی سیاہ Honda Cityکے ساتھ سرخ Audi کھڑی تھی۔
"کپڑوں سے تو اتنا امیر نہیں لگا۔" خاتون نے اپنے شوہر کی طرف دیکھ کر رائے دی۔
"کسی بڑے بزنس مین کا ڈرائیور ہو گا۔" شوہر نے اپنی کار کا دروازہ کھولتے ہوئے حتمی انداز میں بتایا۔