Chereads / Aamir95 / Chapter 1 - کرکٹ۔ ایک جنون

Aamir95

Aamir_Sohail_4330
  • --
    chs / week
  • --
    NOT RATINGS
  • 1.3k
    Views
Synopsis

Chapter 1 - کرکٹ۔ ایک جنون

ویسے کھیل تو سارے ہی کھول رکھے ہیں سوائے تیراکی کے اور ہاکی کےاورٹیبل ٹینس کےاور نیزا بازی کے 😅 نہیں مطلب بہت سارے کھیل ایسے ہیں جو کھیلے بھی ہیں اور سب کو کھیلنے میں مزا بھی آتا ہے لیکن

ایک کھیل ایسا بھی ہے جس کو ناصرف کھیلنے میں مزا آتا ہے بلکہ دیکھنے میں بھی مزا آتا ہے اور وہ ہے کرکٹ۔

کرکٹ کا بھی نا ایک سیزن ہوتا ہے مطلب سکول کے وقت چونکہ سردیوں میں ٹائم کی کمی ہوتی تھی آدھے سے زیادہ دن تو سکول میں گزر جاتا تھا اور شام بھی پلک جھپکتے ہی ہو جاتی تھی سو کبھی کھیل لی اور اکثر نہ کھیلی۔

اس کے برعکس گرمیوں میں کرکٹ کا ایک ٹائم ٹیبل سیٹ ہوتا تھا ۔

اسکول سے واپس آئے کھانا پینا کیا اور ہوم ورک کرنا ہو تو کیا نہیں رات پہ چھوڑ دیا اور پھر مسجد سے فارغ ہو کے سیدھا گراؤنڈ میں پہنچ گئے۔گراؤنڈ بھی کیا تھا ایک پلاٹ تھا جو پتہ کس وجہ سے خالی پڑا تھا لیکن ہمارے لیے وہ قزافی سٹیڈیم سے کم نہ تھا۔

تقریباً ایک ہی وقت میں تمام کھلاڑی پہنچ جاتے تھے پنجی مار کے ٹیم بنائ جاتی کوئ ایک آدھ تبدیلی کے ساتھ باقی ٹیم وہی رہتی ۔

نئ ٹیم میں جانا کسی کیلئے بھی اس لیے آسان نہ تھا کیونکہ آپ مخالف ٹیم کے خلاف صرف کھیلتے ہی نہیں تھے بلکہ زبان بھی خوب چلاتے تھے تو وہ دشمنی کی لہر سی ہوتی تھی جسکی وجہ سے ٹیمیں ایک سی ہی رہتی تھی۔

کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ ایک کھلاڑی فالتو بھی نکل آتا

اب نہ تو اس کو کھیل سے باہر کیا جا سکتا تھا نہ ہی کسی ٹیم میں شامل کیا جاتا تو اس کا فیصلہ یہ کیا جاتا کہ اس کو کامن مین بنا دیا جاتا جو صرف کیپنگ کرے گا اور دونوں ٹیموں کی طرف سے بیٹنگ بھی کرے گا۔

اس بات پر وہ بھی خوش ہوتا تھا کہ بیٹنگ زیادہ ملے گی

لیکن اکثر وہ یک ٹیم کیلئے سہی سے بیٹنگ کر پاتا اور بعد جانبداری کے طعنے بھی سنتا۔

وہاں پہ کلین بولڈ،رن آؤٹ،کیچ آؤٹ اور سٹیمپ آؤٹ کے علاوہ ایک اور طریقہ بھی تھا آؤٹ کرنے کا اور وہ یہ کہ کسی طرح دایاں بلے باز لیگ سائڈ کی بنی حویلی میں گیند پھینک یا سٹریٹ سڑک کے پار بنی حویلی میں گیند پھینک دے ۔دونوں صورتوں کو کلین بولڈ کا درجہ ہی حاصل تھا۔اس پر بیٹسمین کو آؤٹ ہونے کا اتنا غم نہیں ہوتا تھا جتنا ادھر سے گیند واپس لانے کا ہوتا تھا۔ کیونکہ لیگ سائڈ والی حویلی کوئ آسان ہدف نہ تھا۔

پہلے دو میچ کے تو کوئ نہ کوئ نتائج نکل ہی آتے تھے جبکہ تیسرا میچ اکثر متنازع ہو جاتا۔ اکثر تیسرے میچ کے دوران مغرب کی اذان ہو جاتی جس پر پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم بھاگ جاتی تو تنازع کا کبھی کوئ بہتر حل نہیں نکل پایا۔

اتوار کو تو خیر صبح سویرے آنکھ کھلتی حالانکہ رات کو تو یہی فیصلہ کر کے سوئے ہوتے تھے صبح دیر تک سوتےرہیں گے ۔ناشتے کے بعد تھوڑا سا پڑھائ کا دکھاوا کیا تھوڑے یہاں وہاں گھومے اور نکل گئے تب تک واپس نہ آتے جب تک جان حلق تک نہ آجاتی۔

میری طرح کچھ کی والدہ کو گراؤنڈ تک رسائ حاصل تھی تو وہ زبردستی پکڑ کر لے جاتی اور واپس جا کے پہلی مصیبت جو گلے پڑتی وہ تھا نہانا۔

خیر یہ تو تھا تھا کرکٹ کھیلنے کا جنون لیکن کرکٹ دیکھنے کا جنون بھی کچھ کم نہ تھا۔ٹیسٹ ہو رہے ہیں کوئ پرواہ نہیں پرچے سر پہ ہیں کوئ پرواہ نہیں۔استاد بھی سمجھاتے رہ جاتے کہ پڑھائ کر لو یہ میچز کہیں نہیں جا رہےلیکن ہم تھے کہ سنتے نہیں تھے۔ہم کو میچ دیکھنے سے صرفِ اور صرف اگر کوئ روک سکتا تھا تو وہ تھے واپڈہ والے ۔میچ کے انتہائ اہم موڑ پہ بجلی لے جاتے جس کا ہمیں اگلے میچ تک افسوس بھی رہتا۔

خیر وقت روشنی کی رفتار سے گزرا روٹی روزی کی خاطر گھر کو اور اس گراؤنڈ کو خیر باد کہا۔اس وقت پاکستان کا بین الاقوامی کرکٹ میں طوطی بول رہا ہے بین الاقوامی کرکٹ پاکستان میں واپس آ چکی ہے یہ دیکھ کے دل بہت خوش ہوتا ہے لیکن اب میچ دیکھنے کے وہ مواقع میسر نہیں آتے ۔جب 2017 میں پاکستان چیمپیئن ٹرافی کا فانل بھارت سے جیتا وہ لائیو میچ دیکھنا مجھے نصیب نہیں ہوا تھا۔پاکستان بھارت کا میچ جس کو چھوڑنے کا کبھی تصور بھی نہیں تھا وہ میچ نہیں دیکھا۔اب جب بھی میسر آجائے تو دیکھ لیتے ہیں نہ آئے تو بعد ہائلائٹس دیکھ لیتے ہیں۔ اب میچ ہارنے کا غم بھی ایک دن سے زیادہ نہیں رہتا ۔مجھے یاد ہے 2011 کا سیمی فائنل ہارنا پوری رات سو نہیں پایا تھا۔لیکن اب اس غم کی جگہ بہت سے اور غموں نے لے رکھی ہے۔

میری اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میرا پاکستان ہمیشہ قائم و دائم رہے اور ہم دنیائے کرکٹ پہ ہمیشہ حکمرانی کرتے رہیں۔ آمین

عامر