وصل کی گھڑیاں
Episode 1
شہیر کا آج کالج میں پہلا دن تھا____ شہیر کالج کے مین کاریڈور میں چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتے اردگرد کا جائزہ لیتے آگے بڑھ رہا تھا___ پھر اس کی نظر بائیں جانب ایک دروازے کے عین اوپر لکھے الفاظ پر جا ٹکی____ یہی اس کی منزل تھی___ شہیر مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوا____ اس کے چہرے کی مسکراہٹ ہمیشہ ہی موجود رہتی یا یوں کہنا غلط نا ہوگا کہ اس کی مسکراہٹ اس کی شناختی علامت سمجھی جاتی تھی___ شہیر جب کمرے میں داخل ہوا تو اس نے کمرے کا ایک نظر جائزہ لیا___ کمرہ بےحد صاف ستھرا اور کشادہ تھا___ کمرے میں بینچ اور ڈیسک انتہائی نفاست کے ساتھ قطاروں میں لگے ہوئے تھے___ کچھ بینچ خالی تھے اور کچھ بینچوں پر لڑکے موجود تھے جن میں سے کچھ ایک دوسرے کے ساتھ تعارف میں محو تھے___ شہیر نے سب سے بائیں قطار میں تیسرے نمبر پر لگے بینچ کی طرف قدم بڑھائے جو کہ ابھی خالی تھا___ شہیر نے اپنا بینچ سنبھال لیا اور کمرے کا بغور جائزہ لینے لگا___ باقی کے لڑکے ایک دوسرے کے ساتھ باتوں اور ہنسی مذاق میں مصروف تھے ____ اتنے میں ایک بیل ہوئی جو اس بات کا اعلان کر رہی تھی کہ پہلی کلاس شروع ہونے والی ہے___ سب لڑکے متجسس نگاہیں لیے دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے ___ جہاں سے اسی لمحے کسی استاد نے داخل ہونا تھا___ اتنے میں ایک لڑکی سینے سے فائل لگائے دروازے سے اندر داخل ہوئی ___ کیا ہی مسحور کن شخصیت لگ رہی تھی___ گورا رنگ سنہری مائل بھوری آنکھیں ہلکا سا میک اپ خوبصورت لباس زیبِ تن کیے ہوئے وہ کوئی آسمان سے اتری حور لگ رہی تھی____ وہ باوقار طریقے سے آگے بڑھ رہی تھی___ سب لڑکے کھڑے ہوگئے اور اس لڑکی کو جو کہ یقیناً ان کی استانی تھی "گڈ مارننگ" کہا____ استانی نے بھی اپنی خوبصورت مگر رعب دار آواز میں جواب دیا اور سب کو بیٹھنے کا کہا___ استانی سامنے ڈائس کے پیچھے کھڑی ہوگئی اور پوری کلاس کا جائزہ لیا___ کلاس میں 29 لڑکے موجود تھے___ ایک سناٹا چھایا ہوا تھا___ ٹیچر نے سب سلام کہا اور نئی کلاس میں آنے پر مبارکباد بھی دی___ پھر اپنا تعارف کرایا اور باری باری سب لڑکعں نے اپنا تعارف کروایا
شہیر کی باری آئی تو وہ مسکرا رہا تھا___ شہیر تعارف کروانے کے لیے کھڑا ہوا اور اپنے بارے میں سب کو بتایا اور وہی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے اپنے بینچ پر بیٹھ گیا____ استانی کو دیکھ کر اسے ایک حیرت کا جھٹکا ضرور لگا تھا کہ کالج میں اسے اتنی خوبصورت اور کم عمر استانی ملے گی___ تعارف مکمل ہوگیا اور اٹینڈینس شروع ہوگئی___ کچھ لڑکے ابھی بھی غیر حاضر تھے اٹینڈینس کے بعد باقاعدہ پڑھائی شروع ہوگئی__ مگر شہیر تو استانی کے حسن میں ہی کھویا ہوا معلوم ہوتا تھا___ استانی نے جس کا نام تانیہ تھا MA urdu کیا ہوا تھا تو اردو کا ہی مضمون پڑھا رہی تھی
استانی صاحبہ لیکچر دے رہی تھی اور سب لیکچر نوٹ کر رہے تھے ___ شہیر بھی تیز تیز لیکچر کو نوٹبک پر اتار رہا تھا___ مشکل الفاظ وہ white board پر لکھ کر سمجھاتی
وہ white board کچھ لکھ رہی تھی تو شہیر نے وائیٹ بورڈ پر دیکھنے کے لیے نظریں اٹھائیں تو اس کی نظریں بٹھک گئیں___ تانیہ دائیں ہاتھ سے لکھ رہی تھی اس کا دایاں ہاتھ اس انداز میں اٹھا کہ شرٹ کے تھوڑا سا ٹائیٹ ہونے کی وجہ سے اس کا نسوانی حسن یعنی چھاتی کا دایاں ابھار ایک طرف سے عیاں تھا ___ شہیر کی نظریں اس پر ٹک گئیں وہ جادو کی سی حالت میں پستان کو دیکھے جا رہا تھا___ اس کے پستان یقیناً ٹائیٹ تھے اور بڑے بھی__ شہیر نے اوپر سے نیچے تانیہ کے جسم کا جائزہ لیا ____ تانیہ کے کولہے بھی کمان کی طرح باہر نکلے ہوئے تھے___ شہیر جو پہلے ہی تانیہ کو دیکھ کر ایک سحر میں آگیا تھا اب مزید اس پہ فدا ہو گیا___ تانیہ نے اپنا لفظ مکمل کیا اور مڑ کر کلاس کا جائزہ لیا تو اس کی نظر شہیر پر پڑی جو کسی سوچ میں گم سا اسی کی طرف دیکھ رہا تھا___ شہیر نے دیکھا کہ تانیہ اسی کو دیکھ رہی ہے تو اس نے فوراً نظریں جھکا لیں اور دوبارہ لیکچر نوٹ کرنے میں مصروف ہوگیا___
ادھر تانیہ نے شاید شہیر کی نظروں کو محسوس کرلیا تھا مگر اس نے اس بات کو یکسر ہی نظر انداز کردیا______