" ہر کام میں خدا کی بہتری ہوتی ہے خدا اپنے بندوں کو کبھی اکیلے نہیں چھوڑتا۔۔" ماسٹر صاحب نے روح کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
روح : لیکن یہ بات آپ اتنے یقین کے ساتھ کیسے کہہ سکتے ہیں؟
"یقین۔۔۔؟ یہ تو میرا ایماں ہے٬فقط ایماں نہیں بلکہ پختہ ایمان۔"
روح : مگر میں نے تو ہمیشہ اپنے آپ کو تنہا ہی پایا ٬ دعائیں مانگوں تو رد ہو جاتی ہیں٬ ساتھ مانگوں تو تنہا ہو جاتا ہوں ٬جب بھی رویا اکیلا ہی رویا ٬جب بھی لڑا تنہا ہی لڑا یہ سب کتابی باتیں ہیں۔
"تم نے فقط دعائیں مانگی ہیں دعائیں قبول کرنے والے کو کبھی مانگا؟" ماسٹر صاحب نے گہرا سانس لیتے ہوئے پوچھا۔
روح : ہاں ہاں۔۔اب تو آپ ایسی باتیں ہی تو کریں گے جس کا نہ سر ہے نہ ہی پیر ! میں جدی پشتی مسلمان ہوں خدا کو مانتا ہوں اسے محبت کرتا ہوں اور کیا چاہئیے؟
ماسٹر صاحب (شفقت سے): پیارے! جانتا ہوں تم خدا کو مانتے ہو مگر میرا سوال ابھی وہیں ہے کیا تم خدا کو بھی مانگتے ہو؟ زرا اک پل کو سوچو! تم جب بھی روئے تم نے کسی انساں کی ہی حسرت کی کہ کوئی آئے تمہارے آنسو پونچھے تمہیں گلے لگائے تمہارے دکھ بانٹے۔ تم جب بھی لڑے تم نے یہی خواہش کی کہ کوئی ہو جو ان کھٹن مراحل میں میرا ساتھ دے میرے راستے کو آساں بنا دے٬تم نے جب بھی دعا کی اپنے مسئلوں کا حل مانگا۔ مگر کیا کبھی خدا سے خدا مانگا؟ تم خدا سے محبت کرتے ہو مانتا ہوں! مگر کیا تم خدا کی محبت مانگتے ہو؟ تم ایک بار خدا سے خدا کو مانگو تو سہی باخدا تمہیں پھر کبھی کچھ مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔خیر پہلے میں بھی تمہارے جیسا ہی تھا امید کرتا ہوں تم بھی وقت آنے پہ سمجھ جاؤ گے۔
روح : نہیں نہیں آپ گفتگو جاری رکھیں۔پھر کیا ہوا ماسٹر صاحب آپ کیسے اتنا بدلے؟
بدلنے والا تو خدا ہے۔ایک دن میرا دنیا سے یقین ٹوٹ گیا اور اتنی شدت سے ٹوٹا کے میں ںےاختیار رونے لگ گیا ایسا گماں ہو رہا تھا جیسے اب کبھی چپ نہ کروں گا بس اسی عالم میں٬ میں نے قران پاک اٹھایا بس جیسے جیسے پڑھتا گیا ویسے ویسے محسوس ہوا کہ کوئی ہستی ہے جو میرے دل کو قرار پہنچا رہی ہے جو مجھے چپ کروا رہی ہے وہ پہلا لمحہ تھا جب میں نے خود کو سکوں میں پایا! اب تو مجھے دعائیں مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی میں تو بس خدا کو مانگتا ہوں۔ سجدے میں ابھی آنسو بہانے لگتا ہی ہوں کہ خدا چپ کروا لیتا ہے٬ جب تک وہ مجھے چپ نہ کروا لے تب تک سجدے سے اٹھنے نہیں دیتا ٬ گرنے سے پہلے مجھے تھام لیتا ہے۔مشکلات کا حل تلاش کرنے کا سوچتا ہی ہوں کہ مشکلات آسانیوں میں بدل جاتی ہیں اور ایسے غائب ہوتی ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگھ!بس اب گھبرانا چھوڑ دیا ہے۔ خدا کے ہوتے ہوئے تنہائی میں ڈوبا شخص بھی تنہا نہیں ہو پاتا۔ پہلے مجھے بھی سب کتابی باتیں لگتی تھیں
اور اب؟ روح نے تجسس بھری نگاہوں سے پوچھا
ماسٹر صاحب: جب پہلی بار خدا جو مانگا تو احساس ہوا نہ یہ کتابی اور نہ دماغی باتیں ہیں یہ تو بس بدلی باتیں لگتی ہیں۔
روح : مان گئے آپ کو ماسٹر صاحب چلیے میں چلتا ہوں!
ماسٹر صاحب : ابھی تو گفتگو دلچسپ مراحل میں داخل ہوئی تھی کہاں چل دیے میاں؟
روح : آپ سے تو گفتگو ہو گئی اب کچھ گفتگو خدا سے بھی کر لیں بلاوا تو کبھی بھی آ سکتا ہے اب بلاوے سے پہلے بلانے والے سے بھی رابطے قائم کر لیں کوچ کرنے سے پہلے زرا ان کو بھی مانگ لیں!
از قلم : امتہ السلام