نے اس سال اپریل کے مہینے میں مسیحی تہوار ایسٹر کے موقع پر فیصلہ کیا کہ وہ 40 روز تک صرف پانی اور باسی روٹی پر گزارا کریں گے، سروں میں خاک ڈال کر رہیں گے، زمین پر سوئیں گے اور اس دوران سب صرف انتہائی سادہ اور کھردرے موٹے کپڑے پہنیں گے۔
ایک خانقاہ میں راہبوں کے کسی خاندان کا اس طرح رہنا تو کسی بھی زمانے میں عام بات ہے، لیکن یہ کسی خانقاہ کا منظر تھا اور نہ ہی اس خاندان کے لوگ راہب
،تصویر کا ذریعہDEA / G. DAGLI ORTI/GETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
شہنشاہ الیکسیوس: سنہ 1081 میں حکمران بننے کے بعد الیکسیوس تقریباً چالیس برس تک اور پھر ان کے بیٹے جان 20 برس تک بازنطینی سلطنت کے شہنشاہ رہے۔ شہزادی اینا نے 15 جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب 'الیکسی ایڈ' میں اپنے والد کے دور کا تفصیلی احوال پیش کیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب شہزادی کی عمر 7 برس تھی بادشاہ سٹیفن نے ان سے سیکس کی کوشش کی جس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ کے لیے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد بھی ان کی پوری زندگی زیادتی کی مثال بنی رہی جس میں تاریخ پڑھیں تو ان کے والد ان کے شوہر کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔
شہزادی سیمیون کی شادی کا یہ واقعہ شہزادی اینا کرومنینے کی پیدائش سے تقریباً دو صدیوں بعد کا ہے۔
اینا کومنینے سات برس کی تھی جب وہ اپنے ہونے والے شوہر کے گھر بھیج دی گئی تھی۔ ان کے منگیتر کانسٹنٹائین ڈوکاس تھے جو ایک سابق شہنشاہ مائیکل ہفتم کے بیٹے تھے۔ یہ منگنی اینا کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد ہوئی تھی۔ دونوں بچوں کو منگنی کے وقت بازنطینی عوام کے سامنے پیش کیا گیا اور سب کی نظروں میں وہ مستقبل کے شہنشاہ اور ملکہ تھے۔ لیکن یہ صورتحال دیر تک قائم نہیں رہ سکی کیونکہ جب اینا چار برس کی تھی ان کے والدین ہاں بیٹے کی پیدائش ہو گئی۔ اس کے علاوہ کانسٹنٹائین کا بھی جلد انتقال ہو گیا۔
اینا 12 برس کی عمر میں اپنے گھر واپس آ گئیں۔
یہیں سے، شہزادی کی طرف سے تاریخ لکھنے کے فیصلے کے بعد، کہانی میں دلچسپی کا مرکز نصف صدی سے زیادہ عرصے تک دنیا کی ایک بڑی سلطنت کے شہنشاہ رہنے والے دو باپ بیٹے نہیں رہتے بلکہ تاریخ لکھنے کی جرات کرنے والی ایک شہزادی بن جاتی ہے۔ شہزادی جس کی اس معاشرے میں ذمہ داری زمانے کے تقاضوں کے مطابق لڑکی ہونے کے ناطے صرف شادی کرنا اور نبھانا ہونی چاہیے تھی۔
سنہ 1081 میں حکمران بننے کے بعد الیکسیوس تقریباً 40 برس تک اور پھر ان کے بیٹے جان 20 برس تک بازنطینی سلطنت کے شہنشاہ رہے۔ شہزادی اینا نے 15 جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب 'الیکسی ایڈ' میں اپنے والد کے دور کا تفصیلی احوال پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے پہلی صلیبی جنگ کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے اور اسے اس جنگ کی ایک اہم دستاویز سمجھا جاتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہزادی اینا کے والد نے سلطنت کی مشرقی سرحدوں پر سلجوکوں کی صورت میں پیدا ہونے والے خطرے سے نمٹنے کے لیے پاپائے روم سے مدد طلب کی تھی جس کے جواب میں پاہائے روم نے صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا۔ یہ بات الگ ہے کہ، مؤرخین کے مطابق، شہنشاہ الیکسیوس صلیبی جنگ کے اعلان سے حیران رہ گئے تھے اور وہ اس سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھے، لیکن اس پر مزید بات آگے چل کر کریں گے۔
مزید پڑھیے:
استنبول کی 'طوائف گلی' کی تھیوڈورا سلطنت روم کی ملکہ کیسے بنی؟
شہزادی جہاں آرا اور شاہ جہاں کے تعلقات متنازع کیوں بنے؟
ایسا نہیں کہ شہزادی اینا میں 'تخت کے لالچ' کا ذکر نہیں ہوتا یا پہلی اولاد ہونے کے ناطے انھوں نے اس کی کوشش نہیں کی ہو گی۔ کچھ مؤرخین لکھتے ہیں انھوں نے اپنے والد کی موت کے بعد اپنے بھائی کے خلاف سازش کر کے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اقتدار حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی تھی اور اسی پاداش میں انھیں اپنی زندگی کے آخری سال راہبہ کے طور پر ایک خانقاہ میں گزارنے پڑے جہاں انھوں نے اپنی کتاب 'الیکسی ایڈ' لکھی۔
خانقاہ اور راہبہ والی بات تو حقیقت ہے لیکن ان کو زبردستی وہاں بھیجنے والی بات پر سب مؤرخ متفق نہیں۔
اینا کومنینے کا بڑا کمال یہ نہیں تھا کہ انھوں نے 15 جلدوں پر مشتمل تاریخ کی کتاب لکھی بلکہ قرون وسطیٰ کے بازنطینی معاشرے میں اصل کمال اور انوکھی بات یہ تھی کہ انھوں نے یہ کتاب لڑکی ہونے کے باوجود لکھی۔ 11ویں صدی کی بازنطینی سلطنت کے ماحول کے پس منظر میں دیکھا جائے تو انھوں نے یہ کتاب لکھنے کے لیے وہ حدیں پار کیں جو 'اچھے' گھر کی لڑکیاں نہیں کرتی تھیں۔
کولووو لکھتی ہیں کہ بہترین اساتذہ کے ہوتے ہوئے بھی قسطنطنیہ میں کسی لڑکی کے لیے علم کے حصول میں بہت سی مشکلات تھیں۔ 'سب سے اہم بات یہ کہ عورت کا دانشور ہونے کا تصور ہی لوگوں کے لیے عجیب تھا، ایسی عورت کو کرشمہ سمجھا جاتا تھا یا بلا۔' روایتی سوچ کے مطابق علم کا حصول اور دانش مردانہ خصوصیات تھیں اور عورت اپنے 'جذباتی' مزاج کی وجہ یہ اس کی اہل نہیں تھی۔
،تصویر کا ذریعہBILDAGENTUR-ONLINE VIA GETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
شہنشاہ الیکسیوس: 'زیادہ تر سکالر اس بات پر متفق ہیں کہ پاپائے روم دراصل بازنطینی سلطنت کے شہنشاہ الیکسیوس کی مدد کی اپیل کا جواب دے رہے تھے جس میں انھوں نے مشرق سے سلجوک ترکوں کی آمد کے بعد مشرقی رومی سلطنت کو پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کیا تھا۔'
مؤرخہ لیونورا نیول سنہ 2016 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب 'اینا کومنینے: قرون وسطیٰ کی ایک مؤرخہ کی زندگی اور کام'( Anna Komnene: The Life and Work of a Medieval Historian) میں لکھتی ہیں کہ شہزادی اینا کی پیدائش صدیوں سے چلی آ رہی روایت کے مطابق اور کسی بھی اور رومی شہزادی کی طرح سنگ سماق (پورفری ماربل) سے سجے اس خصوصی کمرے میں ہوئے جو ڈلیوری کے مخصوص تھا۔ اس کمرے میں شہزادوں اور شہزادیوں کی پیدائش کی اس روایت کی جڑیں قدیم رومی سلطنت کے دارالحکومت روم میں ملتی ہیں۔
بلکہ جب رومی سلطنت کے مغربی حصے کے زوال کے بعد اس کا دارالحکومت روم سے مشرق میں قسطنطنیہ منتقل ہوا تو یہ کمرہ صدیوں پرانے پتھروں کے ساتھ جوں کا توں وہاں لایا گیا۔ مؤرخ کہتے ہیں دنیا کی تمام دولت اس جیسا یا اس سے بھی قیمتی پتھروں کا نیا کمرہ تو بنوا سکتی تھی لیکن اس کمرے میں پیدائش کا اعزاز سب کے لیے نہیں تھا۔
لیکن اینا کو اس طرح کی شان و شوکت سے زیادہ علم میں دلچسپی تھی۔ مؤرخہ نیول لکھتی ہیں کہ، شہزادی اینا اپنے دور کی بڑی دانشور اور قرون وسطیٰ کی نامور مؤرخ تھیں۔ ایسا نہیں کہ شہنشاہوں کی بیٹیاں پڑھی لکھی نہیں ہوتی تھیں بلکہ کچھ کو کلاسیکل علوم پر دسترس بھی ہوتی تھی، لیکن 'اینا کی تعلیم کا معیار بہت بلند تھا۔' اینا کی کامیابی کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اس ماحول اور لڑکیوں کے بارے