دراصل بتانا یہ تہا کہ عورت مارچ کا آغاز پاکستان میں 2010 ہی میں زور و شور سے شروع ہوچکا تہا البتہ مجہے 2032 میں فرشتوں نے پیدائش کے وقت آغاھہ کیا کے طاقت کا سلسلہ عورتوں کے ہاتھہ میں جا چکا ہے۔ آج، یعنی کے 2050 میں، میں اٹھارہ برس کا ہوچکا ہو حالانکہ میری بہن ریحانہ بیس برس کی۔ بات یہ ہے کہ میں نے بائیک لینے کی زد کی تاکہ میں بہی اپنی بہن کی طرح بائیک کے مزے لے سکوں، تو امی نے منع کردیا یہ کھ کر کہ لڑکوں کو اپنے حد میں رہنا چاہیے۔ میں نے ابو سے شکایت کی تو انہوں نے کہا ' بیٹا میں کیا کرسکتا ہوں، تمہاری امی سنتی کب ہیں کسی کی۔"
ابہی کل ہی کی بات ہے کہ امی ابو سے دیر آنے کا سبب پوچھ رہی تہی کال پر، کیوں کہ امی خود ابہی تک گھر نہیں آئی تھی۔ چلو، ابو نے جیسے تیسے کر کے امی کو منوالیا لیکن ابو کی اس حرکت کی وجہ سے امی اور بہن نے میرے کہیں آنے جانے پر پابندیاں لگانا شروع کردی۔ اب مجھے اپنی بہن کالیج چہوڑ جاتی ہے اور لینے بہی آجاتی ہے کیوں کہ انکا ماننا ہے کے زمانہ خراب ہوچکا ہے کہیں کوئی لڑکی مجھے چہیڑ نہ دے یا کہیں میرا کسی سے افیئر چل پڑے تو امی اور بہن کس منہ سے اپنا منہ زمانے والوں کو دکہائیں گے؟
ابہی دھشت تو آج سے بڑھنی ہے جو کہ ابہی ابہی ٹی وی شو " میل رائیٹس " میں یہ دکہایا گیا ہے کہ پندرہ سالہ نابالغ لڑکے کی عزت لوٹ کر اسے کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیا گیا ہے۔ پوسٹ مارٹم کے بعد پتہ چلا ہے کہ تین الگ الگ اقسام کے ایکس " X " سیلز اس کم عمر لڑکے کے عضو تناسل پر پائے گئے ہیں۔ مرد حضرات اپنے حقوق کی تحفظ کے لیے پی ایم ھاؤس کے آگے دھرنا دے کر چیخ چلا رہے ہیں جو کہ خود ایک عورت ہے اور دس سال پہلے ایک لڑکے کو شادی کے دلاسے اور اسے محبت کے آڑ میں استعمال کرنے کہ تحت دو سال کی سزا بہی کاٹ کر آئی ہیں۔ یہ ھنگامہ آرائیں جاری ہی تہا کہ اتنے میں پی ایم صاحبہ کی منسٹر، جو کہ خود ایک صاحبہ ہیں، نے ٹویٹر پر لکھا کہ " جب گوشت یوں پڑا ہوا ہوگا تو ظاہر ہے بلیا تو جھپٹی گی -"
بلاآخر ، دھرنے کو ختم کرنے کے لیے پی ایم صاحبہ نے اعلان کیا کہ مرد حضرات کے تحفظ کے لیے ایک کمیٹی بنا دی جائیگی جسکی سربراہی پینسٹھ سالہ بلاول بھٹو کرینگے جو کہ خود دو مرتبہ جنسی زیادتیوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
یہ سب باتیں ٹی وی چینلز پر چل ہی رہی تہیں کہ اتنے میں ابو گھر آگئے اور کچھ پریشان سے لگ رہے تہے۔ امی کے اسرار کرنے پر انہوں نے بتایا کہ جب وہ سیلون پر بال کٹوانے جا رہے تہے تو راستے میں کچھ نوجوان اور شریر لڑکیوں نے انہیں خوب چھیڑا ، ان پر سیٹیاں ماری، اور کہا کہ " کیا کمال کا انکل ہے، ہم نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی ایسا انکل نہیں پھسایا۔" یہ سن کر امی اور بہن کو شدید غصہ آیا اور ہاتھوں میں ڈنڈے لیے، باب بہائی پر غالی غلوچ اور چیختے چلاتے باھر چلی گئیں۔ غصہ تو مجھے بھی بہت آیا پر میں آخر کر بہی کیا سکتا تہا۔ میں ایک مرد ہوں اور شریف گھرانوں کے مرد غالی غلوچ تو نہیں کرسکتے، یہ کام صرف عورت کو ہی زیب دیتا ہے۔